پلکیں اٹھیں نگاہ ملی بات ہو گئی
پلکیں اٹھیں نگاہ ملی بات ہو گئی
دونوں طرف سے پرسش حالات ہو گئی
ہلکی سی روشنی بھی نہیں دور دور تک
فرقت کی رات کتنی بڑی رات ہو گئی
راہ جنوں میں بیکس و تنہا چلا تھا میں
ہم راہ دل کے گردش حالات ہو گئی
یہ حسن اتفاق کہ تم آ گئے ادھر
خوش قسمتی کہ تم سے ملاقات ہو گئی
یہ وقت آ گیا ہے مری بے کسی کی خیر
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہاں رات ہو گئی
اے چشم انتظار یہ کیا اعتبار ہے
وہ آ چکے اور ان سے ملاقات ہو گئی
اے شوقؔ اس کو حاصل عمر رواں سمجھ
وہ زندگی جو نذر خرابات ہو گئی