پل بھر کو جس میں چین نہ آئے چھوڑ دو اس کاشانے کو
پل بھر کو جس میں چین نہ آئے چھوڑ دو اس کاشانے کو
گلشن ہی جب کہ راس نہیں آباد کرو ویرانے کو
ہجر کی رات تھی اتنی لمبی کاٹے سے ناں کٹتی تھی
غم کی جوت جگائی میں نے اس دل کے بہلانے کو
کیا کیا نعمت بخشی ہے اس پیارے نے یہ مت پوچھو
درد دیا کچھ داغ دئے اور اشک دئے پی جانے کو
کوئی تو تعبیر بتائے خواب اک میں نے دیکھا ہے
مسجد کو سب رند چلے اور شیخ چلے میخانے کو
آندھی اور طوفان بھی اس کو روک سکے نہ راہوں میں
دور سے آیا ہے پروانہ شمع ہی پر مٹ جانے کو
اونچی نیچی ترچھی ٹیڑھی سب راہیں جو دیکھ چکا
کون آ کر سمجھائے گا اب اس راجسؔ دیوانے کو