مٹی کے علاوہ ہیں کہاں ہم سے کہیں اور

مٹی کے علاوہ ہیں کہاں ہم سے کہیں اور
افلاک نشیں اور ہیں ہم خاک نشیں اور


یہ کس کی سرائے ہے شب و روز جہاں سے
اک جائے مسافر تو اک آ جائے مکیں اور


تجھ حسن مکمل میں قیامت کی کشش ہے
یوسف تو ہزاروں ہیں مگر تجھ سا نہیں اور


میں جان کی بازی بھی لگا دوں اے زمانے
گر ڈھونڈ کے لا دے تو محمد سا امیں اور


راجسؔ کی طبیعت پہ عجب تیرا اثر ہے
رہتا ہوں کہیں اور میں ہوتا ہوں کہیں اور