جو لوگ اجالے کا سب کو پیغام سنانے آتے ہیں
جو لوگ اجالے کا سب کو پیغام سنانے آتے ہیں
ان شب زادوں کی نگری میں وہ سولی پر چڑھ جاتے ہیں
اے میرے خدا کچھ تو ہی بتا یہ دور الم کب گزرے گا
اس بستی میں تو مصنف بھی سچ کہنے سے گھبراتے ہیں
اس دنیا میں اپنی خاطر اک لمحہ بھی خوشیوں کا نہیں
فریاد کہ بس اب ہم ہی ہیں جو رنج پہ رنج اٹھاتے ہیں
اس شہر کے جتنے باسی ہیں وہ گونگے بہرے ہیں ورنہ
ان پر بھی کھلے یہ اہل قلم لکھتے ہیں یا چلاتے ہیں
اس دور کے بعد جو دور نیا دنیا میں آنے والا ہے
ہم راجسؔ چپ کی پستی میں اس دور کے نغمے گاتے ہیں