حق بات پہ مرتا ہوں تو مرنے نہیں دیتے
حق بات پہ مرتا ہوں تو مرنے نہیں دیتے
یہ اہل جہاں کچھ بھی تو کرنے نہیں دیتے
اس پار کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن
کشتی کوئی اس پار اترنے نہیں دیتے
ہر جرم مرے نام کیے جاتے ہیں لیکن
خود پر کوئی الزام وہ دھرنے نہیں دیتے
ہے فکر انہیں مر کے بھی میں زندہ رہوں گا
یہ سوچ کے ظالم مجھے مرنے نہیں دیتے
اس دہر کے مقتل میں بپا ظلم ہے ایسا
مظلوم کو فریاد بھی کرنے نہیں دیتے
منزل ہے کڑی ایسی کڑی بھی تو نہیں ہے
وہ راہنما ہیں کہ گزرنے نہیں دیتے
راجسؔ انہیں دعویٰ ہے بہت چارہ گری کا
رستے ہوئے زخموں کو جو بھرنے نہیں دیتے