پہروں بیٹھا یہ سوچتا ہوں

پہروں بیٹھا یہ سوچتا ہوں
میں بھی کسی درد کی دوا ہوں


سیماب نہیں مگر ہوں مضطر
محشر نہیں پھر بھی میں بپا ہوں


سوئی ہوئی قوم کا ہوں رہبر
سوتے میں اذان دے رہا ہوں


پہلے گزرا ہے مجھ سے فرہاد
یوں کہہ دو مجھے کہ دوسرا ہوں


رستہ سنسان ہو نہ جائے
میں اس لئے کانٹے بو رہا ہوں


جگ بیت چکے مگر ابھی تک
خود اپنی تلاش میں لگا ہوں


کون اس کو سنے سوائے میرے
میں اپنی شکست کی صدا ہوں


ہر شخص مجھ کو دیکھتا ہے
دنیا بھر کا میں ماجرا ہوں


کوئی تو ملے خوشی کا ساتھی
آئینے میں مسکرا رہا ہوں


ہے چشم براہ کون میرا
یا رب میں کس کا آسرا ہوں


جب دیکھیے جل رہا ہوں عرشیؔ
کیا میں کسی لاکھ کا دیا ہوں