آدمی اور آبرو کے بغیر

آدمی اور آبرو کے بغیر
پھول ہو جیسے رنگ و بو کے بغیر


میں فدا تجھ پہ اے نگاہ کرم
چل گیا کام گفتگو کے بغیر


کیا اسی کا ہے نام مے خانہ
لوگ بیٹھے ہیں ہا و ہو کے بغیر


تھا رگ جاں سے تو قریب مگر
پا سکے ہم نہ جستجو کے بغیر


کیا مجھے تم خدا سمجھتے ہو
بات کرتے نہیں جو تو کے بغیر


فرض کر لو کہ مل گئی جنت
کیسے گزرے گی اس کے کو کے بغیر


تم سے عرشیؔ نہ ہو سکے گی کبھی
زیست اس شوخ تند خو کے بغیر