کون گلشن میں رہے نرگس حیراں کی طرح

کون گلشن میں رہے نرگس حیراں کی طرح
آؤ چمکا دیں اسے مہر درخشاں کی طرح


عمر بھر راہ نوردی کا رہا ہم کو جنوں
خار زاروں سے بھی گزرے ہیں گلستاں کی طرح


تار باقی ہیں جو دو چار گریباں میں مرے
ٹوٹ جائیں نہ کہیں تار رگ جاں کی طرح


لوگ کہتے ہیں کہ ہو باغ میں لیکن ہم کو
یاں کہ ہر شے نظر آتی ہے بیاباں کی طرح


زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
دور ہی ہم سے رہو چشمۂ حیواں کی طرح


ہم کو بھاتا ہے چمن دل سے مگر کیا کیجے
اس میں آرام نہیں گوشۂ زنداں کی طرح


دال گلتی نہیں بستی میں ہماری عرشیؔ
آؤ ویرانے ہی میں بیٹھ لیں انساں کی طرح