حسن خود جلوہ نمائی پہ ہے مجبور میاں
حسن خود جلوہ نمائی پہ ہے مجبور میاں
جانئے عشق کو ایک مجرم معذور میاں
قرب گر اور نہ بڑھ جائے تو میرا ذمہ
کھینچ کر دیکھیے اپنے کو ذرا دور میاں
مل رہی ہے ہمیں قسمت سے وہ صہبا کہ جسے
پی کے ہوتا نہیں کوئی بھی مخمور میاں
اپنی راتوں کو جو بیدار رکھا کرتے ہیں
ان کی بیداری کو درکار ہے اک صور میاں
عشق وہ نار کہ دیکھے سے دکھائی نہ پڑے
حسن وہ نور کہ رہتا نہیں مستور میاں
احترام گل و لالہ بسر و چشم مگر
بچیں کانٹوں سے یہ اپنا نہیں دستور میاں
تم جب آتے ہو تو کچھ ایسا لگا کرتا ہے
جیسے جنت سے اتر آئی ہو اک حور میاں
ہم نے سو بار بسایا اسے امیدوں سے
دل وہ بستی ہے جو رہتی نہیں معمور میاں
دار پر چڑھنے کی طاقت نہیں عرشیؔ میں ابھی
سر سے پا تک ہے شکستوں سے بدن چور میاں