نہ تو تارے بجھیں پل بھر نہ دن میں چاند چھپتا ہے
نہ تو تارے بجھیں پل بھر نہ دن میں چاند چھپتا ہے
عجب دنیا ہے دل کی رات بھر سورج بھی چمکا ہے
زمیں اشکوں سے دل کی بھیگتی ہے تب کہیں جا کر
لبوں پہ مسکراہٹ کا بسنتی پھول کھلتا ہے
لئے یہ فرصتوں کی ریشمی چھتری مجھے ملنے
جھجکتی بوندا باندی سا چھتوں پہ کون آیا ہے
بدن کی وادیوں میں گم کہیں ہو جاتی ہے دھڑکن
کبھی پربت سے دل کے یاد کا جب جھرنا گرتا ہے
کھلونوں کی دکانوں پہ قدم رک جاتے ہیں اب بھی
مرے دل کے کسی کونے میں بچپن چھپ کے بیٹھا ہے
اگر خوشبو ملاقاتوں کی سانسوں میں نہیں تو کیا
میرے دل میں کسی کی یاد کا چندن مہکتا ہے
دسمبر کی ٹھٹھری رات میں اس پیڑ کے نیچے
لپیٹے یاد کا کمبل اکیلا کون بیٹھا ہے
پرانے موسموں کی گرد بہہ جاتی ہے پانی میں
کبھی جب تیز جھرنوں میں پرندہ پنکھ دھوتا ہے