دیکھوں تو وہ سامنے بیٹھا ہوا ہے
دیکھوں تو وہ سامنے بیٹھا ہوا ہے
سوچوں تو اک میلوں لمبا فاصلہ ہے
نام تنہائی نے تیرا لکھ دیا ہے
ہر کوئی چہرے کو میرے پڑھ رہا ہے
چھو لیا تھا خواب میں تم کو کسی نے
آج تک وہ خود کو مجرم مانتا ہے
مدتوں پہلے میں اس کا ہو گیا پر
وہ ابھی مجھ کو خدا سے مانگتا ہے
یاد تیری دل پہ چھائی ہے گھٹا سی
تیز ہے برسات جنگل بھیگتا ہے
کیا کبھی پہلے نہیں روٹھا کسی سے
مسکراتا کیوں ہے گر مجھ سے خفا ہے
چاند کی کرنیں ہوئی جاتی ہیں ریشم
اور سناٹا بھی گہرا ہو چلا ہے
وہ ملائم ریشمی لہجہ کسی کا
میری غزلوں میں ندی سا بہہ رہا ہے