پاؤں پھنسے میں ہاتھ چھڑانے آیا تھا

پاؤں پھنسے میں ہاتھ چھڑانے آیا تھا
تم سے مل کر واپس جانے آیا تھا


سارا شور مرے اندر کا جاگ اٹھا
سناٹوں میں دل بہلانے آیا تھا


جنگل جیسی رات کہاں تنہا کٹتی
تیرا غم بھی ہاتھ بٹانے آیا تھا


دنیا پر میں نے بھی پردہ ڈال دیا
وہ بھی دل کی بات بتانے آیا تھا


آنکھیں جھپکیں عہد جوانی بیت گیا
لے کر کتنے خواب سہانے آیا تھا


عازمؔ دل کی کائی زدہ چٹانوں پر
درد کا لشکر پاؤں جمانے آیا تھا