پانی پانی
ابر سے ایک دن یہ ہوا نے کہا
میں تو پیڑوں سے پتے چرا لائی ہوں
تند وحشی بگولے اڑا لائی ہوں
مجھ میں طاقت ہے اس سے یہ ثابت ہوا
سانولے ہو سلونے ہو چنچل ہو تم
مست بے فکر آوارہ بادل ہو تم
کتنے بے چین ہو کیسے بے کل ہو تم
آج سورج کی پگڑی اچھالو ذرا
سن کے یہ ابر کی عقل جاتی رہی
یوں ہی اس کو ہوا گدگداتی رہی
اور خود من ہی من مسکراتی رہی
اس کے آگے کا دلچسپ ہے ماجرا
ابر کی آئی شامت تو سر ہو گئی
بوڑھے سورج کو لیکن خبر ہو گئی
وہ پڑی مار سیدھی کمر ہو گئی
پانی پانی وہیں شرم سے ہو گیا