جب تو ہی کہیں بے سر و سامان پڑا ہے
جب تو ہی کہیں بے سر و سامان پڑا ہے
بے کار تری چاہ میں انسان پڑا ہے
پھر کس کی ضرورت مجھے ڈستی ہے شب و روز
اب دل میں مرے کون سا ارمان پڑا ہے
دیوار میں در کرکے بہت خوش تو ہوا میں
کمبخت ابھی رخنۂ دالان پڑا ہے
مجھ ذرۂ نا چیز کی اوقات ہی کیا ہے
قدموں میں ترے وقت کا سلطان پڑا ہے
ہونے دے مجھے وصل کی ساعت سے بغل گیر
لڑنے کے لئے ہجر کا میدان پڑا ہے
واقف ہی نہیں اس کی کسی چال سے اخترؔ
وہ جس سے مرا واسطہ ہر آن پڑا ہے