Shahid Akhtar

شاہد اختر

شاہد اختر کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    پا برہنہ ہیں اب کے جنگل میں

    پا برہنہ ہیں اب کے جنگل میں تو بھی میں بھی طلب کے جنگل میں خاک خواہش بھی اب نہیں اڑتی خون کی تاب و تب کے جنگل میں ہاں ابھی آرزو نہیں نکلی اور کچھ روز اب کے جنگل میں کفر و اسلام مل رہے ہیں گلے اور کیا ہے ادب کے جنگل میں وہ بھی میری طرح سے رہ لے گا عمر بھر روز و شب کے جنگل میں کون ...

    مزید پڑھیے

    جب اپنا مقدر ٹھہرے ہیں زخموں کے گلستاں اور سہی

    جب اپنا مقدر ٹھہرے ہیں زخموں کے گلستاں اور سہی کچھ سرخیٔ خنجر اور سوا رنگینیٔ داماں اور سہی دل داریٔ دست قاتل کو باقی ہیں ہمیں تو آؤ چلو اس کوچۂ جاناں میں یارو اک جشن چراغاں اور سہی کٹتے ہیں کٹیں بازو و گلو بہتا ہے بہے گلنار لہو اک معرکۂ دل اور سہی اک معرکۂ جاں اور سہی کٹتے ہی ...

    مزید پڑھیے

    زور اس پر ہے نہ حالات پہ قابو یارو

    زور اس پر ہے نہ حالات پہ قابو یارو جانے اب کیا ہو ملاقات کا پہلو یارو کتنے زخموں کے تبسم کا پتہ دیتے ہیں میری پلکوں پہ سلگتے ہوئے جگنو یارو زخم اس طور سے مہکے ہیں سر شام فراق دور تک پھیل گئی درد کی خوشبو یارو کتنے خوابوں کو نچوڑا ہے تو ان آنکھوں سے آج ٹپکا ہے یہ جلتا ہوا آنسو ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی زلف شکن در شکن کی بات ہوئی

    کسی کی زلف شکن در شکن کی بات ہوئی ہمارے واسطے دار و رسن کی بات ہوئی کبھی دھنک پہ کبھی چاندنی پہ ہاتھ پڑا جو تیرے جسم کی تیرے بدن کی بات ہوئی اک آہ دل سے اٹھی اور لبوں پہ ٹوٹ گئی کبھی کہیں جو تری انجمن کی بات ہوئی زہے نصیب کہ تیرا بھی نام آیا ہے جہاں جہاں مرے دیوانہ پن کی بات ...

    مزید پڑھیے

    سجائیں محفل یاراں نہ شغل جام کریں

    سجائیں محفل یاراں نہ شغل جام کریں تو اور کیسے ترے غم کا احترام کریں کسے بلائیں چناروں میں آدھی رات گئے اگر کریں تو کسے صبح کا سلام کریں بسائیں قاف تصور میں اک پری وش کو کچھ آج عشرت ہجراں کا اہتمام کریں جلوس شعلہ رخاں کس طرف کو گزرے گا کوئی بتائے کہاں اہل دل قیام کریں چلو کہ ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    بازار

    اس قدر شوخ نگاہوں سے نہ دیکھو مجھ کو غیرت حسن پہ الزام نہ آ جائے کہیں تم نے خود بھی نہیں سمجھا ہے ابھی تک جس کو لب پہ وہ خواہش بے نام نہ آ جائے کہیں یہ جو معصوم تمنا ہے تمہارے دل میں کتنی سنگین خطا ہے یہ تمہیں کیا معلوم اور دنیا میں محبت کے خطا کاروں پر کس قدر ظلم ہوا ہے یہ تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    آس

    شب کے آوارہ گرد شہزادے جا چھپے اپنی خواب گاہوں میں پڑ گئے ہیں گلابی ڈورے سے رات کی شبنمی نگاہوں میں سیم تن اپسراؤں کے جھرمٹ محو پرواز ہیں فضاؤں میں رات رانی کی دل نشیں خوشبو گھل گئی منچلی ہواؤں میں جھیل کی بے قرار جل پریاں آ کے ساحل کو چوم جاتی ہیں دم بہ دم میری ڈوبتی نظریں تیری ...

    مزید پڑھیے

    اعتراف

    جل بجھے آنکھوں میں خوابوں کے مہکتے پیکر اب کہیں کوئی شرارہ ہے نہ شعلہ نہ دھواں کھو گئے وقت کی پتھریلی گزر گاہوں پر چند بے نام تمناؤں کے قدموں کے نشاں ایک پرچھائیں ہوں جس میں نہ کوئی رنگ نہ روپ صرف احساس ہو تم جس کا کوئی نام نہیں میں بھی پابستہ ہوں حالات کی زنجیروں میں تم پہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    تیرے سوا

    سوچتا ہوں کہ ترے پیار کے بدلے مجھ کو کیا ملا درد و غم و رنج و مصیبت کے سوا اک تڑپ ایک کسک ایک خلش ہے پیہم ایک لمحہ بھی سکوں کا نہ مرے پاس رہا اور تو اجنبی آغوش کی زینت بن کر اک چمکتی ہوئی فردوس میں جا بیٹھی ہے رقص کرتے ہیں نئے خواب نگاہوں میں تری دل سے ماضی کے سبھی نقش مٹا بیٹھی ...

    مزید پڑھیے