نیون سائنز

اور اب ہم نے سرما کی سرد اور اندھیری راتوں میں لارنس جانا چھوڑ دیا ہے اور اس بات کا مجھے قلق بھی بہت ہے۔ پوچھو! وہ کیوں؟


یوں کہ لارنس کی ٹھٹھری ہوئی کالی راتوں میں رات کی رانی کی آوارہ مہک اور لانبے لانبے گھنے اور عمررسیدہ درختوں کے مہیب سائے بہت یاد آتے ہیں۔


گھپ اندھیرے میں اونچے درختوں اور بے چراغ لیمپ پوسٹوں سے گھری پختہ سیاہ روش اور دور درختوں کے کنج میں سے ٹِم ٹِم نظر آتی ترت مراد شاہ کے مزار کے دیووں کی روشنی بہت ہیبت زدہ کر دیا کرتی تھی۔ نامعلوم سی دہشت کی ایک خنک اور جما دینے والی لہر سارے وجود میں دوڑ جایا کرتی تھی۔


اور خوف و دہشت انسان کے لیے کتنی اہم اور ضروری شے ہے کہ انسان خوف زدہ نہ ہو تو بہت پھیلتا ہے اور آدمی سے آدمی دو ربھاگتا ہے۔ اور جب وہ دہشت زدہ ہوتا ہے تو وہ سکڑتاہے اور ایک دوسرے کے بہت قریب ہونا چاہتا ہے۔


ہاں تو ہم اپنی سانسوں اور آہٹوں سے ڈرتے لرزتے جم خانے والی سڑک پر چلتے چلتے پنجاب کلب کی جانب آ نکلتے۔ کلب ہال کے شیشوں سے چھن چھن کر آتی روشنی اور سایوں کے سوا ایک آواز بھی نہ سنائی دیتی۔ اور ہمیں خوب معلوم ہوتا تھا کہ اندر تاشوں کی بازی اور وہسکی کے پیگ پر بزنس پیکٹ طے ہورہے ہوں گے، لین دین کے معاملے اور خفیہ معاہدے زور شور سے کیے جارہے ہوں گے۔


وہسکی کے ایک پیگ کے گردش میں آنے اور کسی عورت کے اِدھر سے اٹھ کر اُدھر بیٹھ جانے پر لاکھوں اور ہزاروں کے وارے نیارے ہورہے ہوں گے۔


اور ہمیں یہ بھی خوف معلوم ہوتا تھا کہ اب لوگ شراب پی کر بدمست نہیں ہوتے، بے خود ہونے کی بجائے اپنی بزنس کے سارے معاملے اسی عالم میں کرتے ہیں، اور اگر لوگ شراب پی کر بدمست ہوجایا کرتے تو انہیں ایل ایس ڈی ایجاد نہ کرنا پڑتی تھی۔


پھر بھی اس سڑک پر آکر خون جمنے لگتا اور ہر لحظہ یوں معلوم دیتا جیسے کوئی ابھی جھومتا جھامتا آپڑے گا۔ قدم تیز اٹھتے، سانس تیز تیز چلتی اور ہم سردی میں یخ ہوئی گاڑیوں میں بے آرامی سے سوئے ہوئے ڈرائیوروں کو دیکھتے، اور ان سے بھی ڈرتے جلد جلد قدم اٹھاتے اس گیٹ پر آ نکلتے جس کے عین مقابل آرٹ کونسل کی عمارت ہے۔ اور جس کے ساتھ برگد کا گھنا اور اتنا زبردست درخت ہے کہ اس کی جڑوں کی قوت نے پختہ اور شفاف سڑک کے ساتھ ساتھ والی فٹ پاتھ کو جابجا سے شق کردیا ہے اور وہ ایک بہت بڑے جڑیلے کارنیکل کی صورت میں ابھر آئی ہے اور اس درخت تلے آتے ہی ہمارے قدم ٹھٹک جایا کرتے تھے۔ برگد کا درخت، تڑخی ہوئی فٹ پاتھ، برگد کے تنے میں اُبھرے ہوئے پھوڑے اور موکھلے، اس کی گھنی مہیب ڈالوں کے اندھیاروں سے لٹکتی جٹائیں، یعنی برگد کی ڈاڑھیاں، خاموشی اور مہیب اندھیرا۔ وقت تھم جاتا، زمانے کی پائلیں بج اٹھتیں۔ برسوں پرانی زندگی چھم چھم رقصاں نظر آتی۔۔۔ گئے وقتوں کے قافلے قطار در قطار گزرتے اور اس بوڑھے برگد کے ریشے ریشے میں خلیے خلیے میں کتنے عہد خوابیدہ ہوتے، اور کتنے نئے زمانے انگڑائی لیتے محسوس ہوتے۔ تاریخ سر برہنہ کھڑی ہوتی۔


اور یہ ساری طلسمات اندھیرے اور تاریکی کی تھی۔


ہر شب یہی کچھ ہوتا!


داستانی انداز میں بولتے بولتے وہ اچانک یوں خاموش ہوگئی، جیسے کسی پہاڑی چشمہ کے سوتے قطرہ قطرہ ٹپکتے ٹپکتے اچانک خشک ہوجائیں۔


تب اس نے اندھیرے کمرے میں سڑک کے لیمپ پوسٹ کی شیشوں میں سے چھن کر آتی روشنی کی مدھم لکیروں سے قائم ہونے والی روشنی میں ٹٹول کر تھری کاسل کی سبز ڈبی نکالی، ٹٹول کر سگریٹ نکال کر روشن کیا اور ڈبیہ آگے سرکا دی۔


’’پینا ہیں؟‘‘


پھر وہ اندھیرے میں ہنسی۔


میں نے سگریٹ کا کوئی برانڈ مقرر نہیں کیاہے۔ کارلٹن سے لے کر ’’او کے‘‘ اور ’’کے ٹو‘‘ تک سارے کے سارے میرے ہی برانڈ ہیں۔ البتہ ماچس کا برانڈ ضرور مقرر ہے کہ میں ہمیشہ اور ہر کام کے لیے فلاور باسکٹ ماچس استعمال کرتی ہوں کہ اس کی تیلی لکڑی سے نہیں، مومیائے ہوئے کاغذ سے تیار کی جاتی ہے۔ اور میرے نزدیک لکڑی کو آگ دکھانا گناہ ہے۔


لکڑی جو درخت ہوتی ہے، جو برگ و بار لاتی ہے، اور درخت جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی خاموش، پُروقار اور مہربان ہوتا ہے۔ کہتے ہیں، کبھی انسان بھی پُروقار اور مہربان ہوا کرتا تھا۔


ہاں تو پھر کیا ہوا۔ ایک دم ہی داستانی انداز پھر لہجہ پر غالب آگیا تھا۔ ایک رات یوں ہوا۔۔۔


ایک سرے پر برگد کا درخت تھا اور دوسری طرف وکٹوریہ گیٹ اور اس کے آگے دیواروں سے گھرا ہوا راستہ یعنی چڑیا گھر کی سڑک۔


تو کیا ہوا کہ اس شب برگد تلے وقت کی چھاگلیں خاموش رہیں، اس کی ایک بھی پائل نہ بجی۔ اگلے اور پچھلے زمانوں کے سارے قافلے گم تھے۔ جیسے کسی نے بھولے سے رات کی بجائے دن کو کوئی کہانی سنادی ہو، اور سارے زمانے رستہ بھول گئے ہوں۔


اور ہم نے چونک کر دیکھا تو وکٹوریہ گیٹ کے نکڑ پر کوکا کولا کا ایک بہت بڑا سا نیون سائن نصب تھا۔ ایک بڑا سا گول دائرہ۔ اور اس کے اندر کئی دائرے۔ ہر دائرے کا رنگ دوسرے سے مختلف تھا۔ ہر دائرے کا اپنا الگ رنگ تھا۔ اور سارے دائروں پر حاوی۔ کوکا کولا کا نام تھا۔ یہ سارے دائرے، گاہ جل اُٹھتے اور گاہ بجھ جاتے۔ آنکھوں میں چکا چوند سی ہوئی، نظر تلملائی۔


اس طرف برگد کا پرانا درخت تھا۔ اور اس طرف میسن ہال کی تاریکی کی متلاشی پُر اسرار عمارت۔ ہمارے اس ہاتھ کو واپڈا بلڈنگ کا پیالے نما سبز ر وشنی سے لبریز قبہ تھا اور اس سے کچھ آگے، الفلاح کی روشن جبین۔ اور اس کی نیون سائنز سے دمکتی پیشانی پر سروس شو والوں کا بار بار لپکتا ہوا جوتا۔ حد ہوگئی تھی۔۔۔


ہمارے عہد کی راتیں سوگوار اور ماتم کناں تھیں۔ تم نے راتوں کی خلوتوں پر چھاپے مارے ہیں۔ پہلے تم نے ہماری اذانوں کے اسرار گم کیے۔ مائیکرو فون کی لہروں پر کرخت آوازوں میں دی جانے والی اذانوں میں کوئی بھید اور کوئی راز باقی نہ رہا۔ اور اب تم نے ہماری راتوں کے سہاگ بھی لوٹ لیے۔


اور شبوں کا تقدس تو ان کی افسردگی، ان کی ظلمتوں اور ہیبت سے عبارت ہے۔


اب نہ ہماری راتوں میں سکوت باقی ہے اور نہ ظلمتیں۔ انسان اب راتوں کو بھی اتنا ہی نڈر ہے، جتنا وہ دن کو تھا۔


نیون سائنز نے رات کی چادر کو پارہ پارہ کردیا ہے۔


آہ یہ نیون سائنز۔۔۔ رات کے جسم پر چمکتے ہوئے داغ۔۔۔ مجھے ان سے خوف آتا ہے۔ اور ان کے نظارے سے میری یہ آنکھیں درد کرنے لگتی ہیں۔


پھر اس روشنی میں انسان کچھ بھی تو نہیں دیکھ سکتا۔ اور اس دنیا میں کتنی بہت سی چیزوں کو انتظار ہوتا ہے کہ ان کی طرف دیکھا جائے۔ مگر اے نیون سائنز۔۔۔ ہمیں تاریکی اور ظلمتوں کی ضرورت ہے۔۔۔ کہ بہت سی روشنی نظر کو خیرہ کردیتی ہے۔


وہ پھر اندھیرے میں ہنسی۔ اور عجیب بات ہے کہ اتنی بہت سی پگلی اور بے سر و پا باتیں کرنے کے باوجود اس کی ہنسی میں ذرا بھی پگلا پن نہ تھا۔


اور پتہ ہے کیا ہوتا ہے، جب ہم بہت دیر تک چوندھیا دینے والی روشنی کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ ہماری آنکھوں میں بس جاتی ہے۔ ہم آنکھیں بند بھی کرلیں تو بھی ان بند آنکھوں میں وہ روشنی در آتی ہے۔


اور پتہ ہے کیا ہوا۔۔۔ شاید یہ نیون سائنز میری آنکھوں میں سما گئی ہیں۔ یہ ہر گھڑی رنگت بدلتی اور اندھیرے اجالے سے آنکھ مچولی کھیلتی ہوئی میری آنکھوں میں بس گئی ہیں۔


جب ہی تو میں نے یہ نیون سائنز انسانی چہروں پر جلتی بجھتی دیکھی ہیں۔ اب اس کی آواز پر وحشت تھی۔


دیکھو مجھے لگتا ہے۔۔۔ نہیں نہیں لگتا کیا ہے یہ حقیقت ہے۔ میں کریک ہوگئی ہوں، مجھے لگتا ہے کہ جیسے میرے دماغ کا ایک حصہ ضرور خراب ہے۔


’’میں روشنی کر لوں؟‘‘ اس کے ساتھی نے گھبرا کر پوچھا۔


’’تم روشنی کرکے کیا پاؤ گے، جبکہ اندھیرے اور اُجالے میں فرق ہی نہیں رہ گیا۔اُجالے اب اتنے عنقا تو نہیں۔ اب تو راتیں بھی اندھیری نہیں ہوتیں۔‘‘


تاریکی میں سگریٹ کا روشن سرا بجھ جانے والی شمع کے گُل کی طرح دمک رہا تھا۔


’’پھر بھی روشنی کرلینے میں کیا حرج ہے۔ تم یوں سدا اندھیرے میں تو نہیں بیٹھ سکتیں۔‘‘


’’تم روشنی کرلو۔‘‘


تب اس نے بتی جلائی۔ اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ نہایت مطمئن اور باہوش نظر آرہی تھی۔ اس کو اطمینان سا ہوا اور حیرت بھی۔


’’ارے!‘‘


’’ارے کا کیا مطلب، تمہیں کس بات پر حیرت ہوئی!‘‘


’’کچھ نہیں۔‘‘ اس نے بات بنائی، ’’تمہارے گرد قلم ہے، کاغذ ہیں، برش ہے، رنگ اور روغن ہیں۔ تم کیا ایک وقت میں دو کام کرتی ہو۔‘‘


’’دراصل، میں کچھ بھی نہیں کرتی ہوں۔ جب ہم سب کچھ کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو اپنے اردگرد بڑا طمطراق اکٹھا کرلیتے ہیں۔ اور لوازمات کا ایک جال بُن لیتے ہیں۔ اچھا، اب تم نے اصل بات کہنے سے گریز کرکے دوسری بات کیوں کی تھی۔ اس لیے نا کہ تم نے یہ نہیں کہنا چاہا تھا کہ ارے تم تو ذرا بھی پاگل نہیں نظر آرہی ہو۔ نہیں، میں پاگل نہیں ہوں، لیکن میرے دماغ کا ایک حصہ ضرور خراب ہے۔ جب ہی تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے اردگرد، میرے جانب کاروں اور ان لوگوں کے چہروں پر جن سے میں خوب اور اچھی طرح واقف ہوں، یہ بڑے بڑے سے بورڈ آویزاں ہیں جو گھڑی گھڑی رنگ بدلتے اور جلتے بجھتے ہیں۔ اور اب یہ حال ہے کہ میں کسی کو بھی نہیں پہچان پاتی۔ اب ہر شخص اجنبی اور ہر گھڑی نیا نظر آئے گا، لوگوں کی محبتیں، وفائیں، نفرتیں اور سارے اصول گھڑی گھڑی بدلتے ہیں۔


کون کیا تھا؟ اور اب کیا ہے؟یہ فیصلہ مشکل ہوجائے گا۔


کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے، میں یہاں اجنبی ہوں اور اپنی بستی سے ناواقف۔


جیسے میری بستی کھوئی گئی ہو۔۔۔ میرے رستے گم ہوگئے ہوں۔۔۔


چہرے بہت جلد جلد اپنے رنگ بدل رہے ہیں، یگانگت اور بیگانگی کے فاصلے ختم ہوچکے ہیں۔ ایک ایک انسان کے بے شمار روپ مجھے اپنے محیط میں لے رہے ہیں۔‘‘


تب اس کی آنکھوں کی چمک سے گھبرا کر اس نے ایک بار اور التجا کی، ’’میں روشنی گُل کردوں۔ بتی بجھا دوں۔‘‘


’’ہاں، ضرور۔‘‘ اس نے فوراً جواب دیا۔ اندھیرے اور ظلمات میں بڑا تحفظ اور بڑی یکسانیت ہے۔ اندھیرے بڑے پردہ پوش ہوتے ہیں۔


بتی بجھی تو وہ چونک کر پوچھنے لگی، ’’ہاں، تو میں کیا کہہ رہی تھی؟‘‘


’’کیا بہت ضروری ہے کہ انسان کچھ نہ کچھ کہتا ہی چلا جائے؟‘‘


’’ہاں، کم سے کم اس کے لیے بہت ضروری ہے جسے ہر چہرے پر چھوٹے بڑے بے حساب دائرے نظر آتے ہیں۔ گھڑی گھڑی جلتے بجھتے، رنگ بدلتے اور تمام دائروں پر محیط کوئی نہ کوئی اشتہار نمایاں اور خوب صورت حروف میں لکھا ہوا۔ اب انسان کس کس سے کہے اور کس کس کو جتاتا پھرے کہ میں نے تمہارے کون کون سے اور کتنے روپ دیکھے ہیں۔ اور یہ بتاؤ! کہ تمہارا کوئی سچا اور اپنا روپ بھی ہے۔


اب گئے دن کی بات ہے کہ میں نے وہ چہرہ دیکھا جس سے میں بہت واقف تھی اورمیں نے اسے بہت دیکھا تھا۔ اور اب میں تمہیں کیا بتاؤں کہ وہ کتنا بدلا اور میں نے اس پر کتنے دائرے اور کتنے رنگ دیکھے۔ حد تو یہ ہے کہ اس پر لکھے ہوئے اشتہار بھی گھڑی گھڑی بدلتے تھے اور اس چہرے کے مقابلے میں کوکاکولا کا وہ نیون سائن کتنا بہتر لگا تھا کہ جس کے دائرے گھڑی گھڑی رنگ بدلتے اور جلتے بجھتے تھے لیکن کم سے کم ایک چیز تو مستقل اور برقرار تھی کہ اس پر مستقل کوکا کولاکا اشتہار آویزاں تھا۔


اور اب کیا تمہارا خیال ہے کہ مجھ پر یہ فرض تھا کہ میں اپنی اس واقف اور دوست کو یہ بتاتی کہ مجھے تمہارے چہرے پر مختلف دائرے نظر آئے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس پر کوئی مستقل قسم کا اشتہار بھی تحریر نظر نہیں آیا ہے۔


نہیں، یہ بات درست نہیں۔ کسی کو اس کے بارے میں بتانا اور جتانا بڑا خطرناک اور غیر منفعت بخش سودا ہے۔ دوسروں کے پردے فاش کرنا ہم پر لازم نہیں۔۔۔ کہ خداوند ستار العیوب ہے۔ وہ خود پردہ پوش ہے اور اس نے انسان کو نیون سائنز عطا کیے ہیں کہ وہ اپنے چہروں کو نقاب اندر نقاب رکھیں۔


لیکن یہ بات بھی ہے کہ دیکھنے والی نظر کا خیال نہ کیا کہ یہ گھڑی گھڑی جلتی بجھتی روشنیاں نظر پر ظلم کرتی اور بڑا دکھ دیتی ہیں، اور بسا اوقات نظروں میں سما کر رہ جاتی ہیں، کہ میں اس رات کو بہت کھوجتی اور نہیں پاتی ہوں کہ جس رات میں نے برگد تلے سے کھڑے ہوکر وکٹوریہ گیٹ کے نکڑ پر جھلمل کرتے کوکاکولا کے اس نیون سائن کو دیکھا تھا اور پھر اس شب کے بعد اجالے اور اندھیرے نے اپنے آپ کو ان کے محیط میں محصور پایا۔


لارنس کی رات اب بھی ویسی ہی سرد، خاموش اور اندھیری ہیں اور روش روش رات کی رانی کی آوارہ مہک بھٹکتی ہے۔ اب سبھی جم خانے اور پنجاب کلب کے باہر شیشوں سے چھن چھن کر آنے والی روشنیوں کی تاریکی کے پردے چاک کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف نظر آتی ہیں۔ اب بھی وہاں تاش کی بازیوں اور عورتوں کے الٹ پھیر سے معاملے اور سودے طے ہوتے ہیں۔ لوگ بڑھیا سوٹوں میں ملبوس، بڑھیا شرابوں کے جام ہاتھوں میں اٹھائے اپنے چہروں پر نیون سائنز کے بورڈ آویزاں کیے ہنس بول رہے ہیں اور رات گئے یا صبح کاذب کے دھندلکے میں کوئی بیرا اُن کو نیم بے ہوشی کے عالم میں گھسیٹ کر ان کی گاڑیوں میں ڈال دیتا ہوگا اور ڈرائیور کا شانہ ہلا کر اس کو بیدار کرتا ہوگا۔ ’’انہیں لے جاؤ کہ ان کے معاملے اور سودے مکمل ہوچکے ہیں۔‘‘


وقت دبے قدموں یوں ہی اپنے کاموں میں مصروف رہے گا۔ اور میں شاید اندھیرے اور ظلمتوں کی عافیتوں کی تلاش میں یوں ہی بے کَل رہوں گی۔ میرے اردگرد نیون سائنز کے بورڈ کسی درخت کی ڈالوں پر تیزی سے بڑھتے ہوئے پتوں کے اضافی اور ضربی عمل کی صورت میں بڑھتے جائیں گے۔ اورکہتے ہیں جب درخت ناقص پتوں اور ڈالوں کا بوجھ اٹھائے اٹھائے اُکتا جاتا ہے، تب خزاں کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ اور خزاں کے دامن میں بہاروں سے کئی گنا زیادہ رنگ ہوتے ہیں۔ پتے پتے کا روپ بدلتا ہے۔ پتے پتے کا رنگ جدا ہوتا ہے۔ تم نے دیکھا ہے کبھی فصلِ خزاں کا وہ دَور، جب پتا پتا رنگ بدلتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے تمام رنگ آپس میں گڈ مڈ ہوتے ہیں تو مکمل اور بھرپور خزاں آتی ہے۔


اور یہ کہیں فصلِ خزاں تو نہیں۔کہیں تم نے خزاں کے پاؤں کی چاپ تو نہیں سُنی!


نہیں ٹھہرو! پہلے میں اپنی کھڑکیاں اور دروازے مضبوطی سے بند کرلوں۔ تب تم کوئی جواب دینا۔ اچھا چھوڑو! مجھے نیند آرہی ہے۔میں نے تکیہ پر سر رکھ لیا ہے۔


اور اب تم بھی سو جاؤ!‘‘


اس کے ساتھی نے اس کی نیند میں ڈوبی آواز کو آخری بار سُنا۔


اور بہت دیر بعد مکمل سکوت کو محسوس کیا۔ بجز دھیرے دھیرے آتی ہوئی نرم نرم سانسوں کے۔


کھڑکی کے شیشوں میں سے چھن چھن کر آتی ہوئی روشنی میں اس کے چاروں طرف بکھرے ہوئے کاغذ تھے اور بِلا کیپ کا ایک قلم تھا جس کی روشنائی شاید ختم ہوچکی تھی اور سگریٹوں کی راکھ سے لبریز دانی، برش، رنگ و روغن۔ کھڑکی کے شیشوں میں سے آتی ہوئی مدھم روشنی اپنے ساتھ درختوں کی ڈالوں کے جو سائے لائی تھی، وہ دیوار پر مدھم اور پُراسرار نقش ابھار رہے تھے۔


پھر اس نے اکتا کر کھڑکی کا پردہ ہٹادیا او رکھڑکی کے پٹ کھول کر دیکھا، سامنے کوکا کولا کا ایک نیون سائن گھڑی گھڑی جل بجھ رہا تھا۔