کمند ہوا

کریما بہ بخشائے برحالِ ما
کہ ہستیم اسیرِ کمندِ ہوا
نداریم غیر از تو فریاد رس
کہ توئی۔۔۔ کہ توئی۔۔۔


اور بس۔۔۔ اس سے آگے کے الفاظ اگر مجھے بھول گئے ہیں یا میں ان کو بھول گئی ہوں تو ان کی یاد آوری کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔ یاد آوری قطعی فضول اور لاحاصل حرکت ہے جو انسانوں پر روز و شب لیکن بالکل بے ضرورت طور پر مسلط رہتی ہے۔


ہماری خالہ اماں کا گھر تہ خانے والا مکان کہلاتا تھا۔ سبب اس کا یہ کہ اس محلے میں صرف یہی وہ واحد مکان تھا جس میں تہہ خانہ تھا۔۔۔ ان دنوں (یا شاید اب بھی وہی دستور ہو) وہاں کا یہی طریقہ تھا کہ مکانوں کو ان کے مالکوں کے نام، نمبروں یا خود اپنے کسی نام جیسے بیت فلاں یا فلاں فلاں منزل کے بجائے اس کی کسی نمایاں خصوصیت کے حوالے سے مشہوری حاصل ہوتی تھی۔ پتھر والا مکان، لال مکان، گے والا مکان (گما اینٹوں سے بنا ہوا) چبوتر والا مکان۔ غرض بے شمار مکان بے شمار ناموں سے پکارے جاتے تھے۔ سو یہ تہہ خانے والے مکان کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس کا تہہ خانہ بہت کشادہ بہت روشن اور بے حد ٹھنڈا تھا۔ اندر اترو تو بالکل یوں لگتا تھا جیسے ائیر کنڈیشنڈ ہو۔ اس کی پچھلی دیوار میں جو گلی سے متصل تھی کھڑکیاں ہی کھڑکیاں تھیں (ہم ان کھڑکیوں کے ساتھ ونڈوسل پر بیٹھے بیٹھے سلاخوں میں سے ہاتھ نکال کے گلی میں آتے جاتے پھیری والوں سے کھٹا میٹھا چورن، فالسے، کلائی پر باندھنے والی نقلی گھڑیاں اور دھوپ کے نقلی چشمے خریدا کرتے تھے۔) یہاں پر بیٹھ کر خریداری کرنے کا فائدہ یہ تھا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی کہ ہم یہاں بیٹھے کون سی بلو اسٹینڈرڈ اشیاء خرید رہے ہیں۔ خصوصاًلال سبز اور پیلے کمپٹ (کمپٹ حرف عام میں یعنی پھیری والوں کی زبان میں لیمن ڈراپس کا دیسی نام تھا۔) وہ تو ہم سب کے سامنے لے کر چوس ہی نہ سکتے تھے کہ اتنی بیماریوں اور خرابیوں کی نوید سنا سنا کر ڈانٹا جاتا تھا، ٹونسی لائٹز ہو جائے گا اور پتا نہیں کون کون سی قباحتیں بیان ہوتیں۔ پھر وہ کمبٹ کبھی نہ لینے کا وعدہ لے کر اس کے عوض پیکٹوں اور خوبصورت ڈبوں میں بند لیمن ڈراپس دلوائے جاتے۔ مگر وہ کمپٹ، ان کا مزا ہی اور تھا۔ وہ یقیناًگھٹیا اور دیسی طریقے سے ہی تیار ہوتے ہوں گے اس لیے کہ وہ زیادہ کھٹے اور بہت تیز تیز رنگوں کے ہوا کرتے تھے۔ وہ اب بھی یاد آتے ہیں۔ اچھا تو وہ بات تو بیچ ہی میں رہ گئی۔ اس کھڑکیوں کے مقابل کی دیوار میں ایک دیوار گیر الماری تھی جس کے اندرونی پٹاؤ کنکریٹ سے تیار کیے گئے تھے اور دروازے کسی مضبوط لکڑی کے تھے جن کا روغن گہری براؤن رنگت کا تھا۔ اس دیوار گیر الماری کا طول کم اور عرض زیادہ تھا۔ تہ خانے کی شمالی اور جنوبی دیواروں میں اونچے اونچے طاق تھے جن کی محرابیں کسی خوبصورت بیل اور اس کے پھول پھل سے سجی ہوئی تھیں۔ یہ بیل اور اس کے پھل پھول تعمیری مصالحے سے ابھارے اور نکالے گئے تھے۔ (اس وقت تو نہیں سوچا تھا پر اب خیال آتا ہے کہ وہ مستری کیسے ہو ا کرتے ہوں گے جو اتنی دل جمعی سے پتھر اور کنکریٹ میں ایسے نقش و نگار ابھارتے تھے۔ یقیناًاپنی کارکردگی پر بہت مطمئن اورخوش رہا کرتے ہوں گے۔) تہ خانے کے وسط میں دری چاندنی کے فرش پر سرخ اونی قالین بچھا رہتا تھا اور دیوار کے ساتھ ساتھ سفید لٹھے کے اجلے اجلے غلافوں سے منڈھے گاؤ تکیے اور مکینیاں دھری رہتی تھیں۔ (بڑے گاؤ تکیوں پر بچے سوار ہو کر گھوڑا گھوڑا کھیلتے اور اس حرکت پر بڑوں سے ڈانٹیں بھی کھاتے تھے۔)


تہہ خانے میں اترنے والی سیڑھیاں اس باورچی خانے کے پہلو سے نکلتی تھیں جس کا دروازہ ڈیوڑھی میں کھلتا تھا۔ شاید اس مقصد سے کہ مرد خانساماں ڈیوڑھی سے براہ راست داخل ہو سکے۔ باورچی خانے کا محل وقوع اس انداز کا تھا کہ گھر کمے صحن یا کسی بھی گوشے سے دیکھنے والوں کو یہ اندازہ ہی نہ تھا کہ ادھر کہیں کوئی باورچی خانہ اور اس کے ساتھ والا سٹور بھی ہے۔ دراصل اس گھر میں دو باورچی خانے تھے۔ دوسرا اندرون خانہ کا، وہ باورچی خانہ جس کے در صحن میں کھلتے تھے۔ میرا خیال ہے کیوں نہ اس گھر کا مکمل نقشہ بیان کردوں جو ذہن کے نہ جانے کس گوشے میں اس طرح محفوظ رہتا ہے جیسے کسی دبیز اور گہری دھند کے پردے کے پیچھے چھپا ہوا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ گھر یعنی وہ تہہ خانے والا مکان اب اپنے موقع محل پر موجود ہی نہ ہو۔ عین ممکن ہے کہ وہ اب ڈھا دیا گیا ہو۔ وہ بھی اور اس کے متصل لال مکان بھی۔ ہاں لال مکان جس کی کھڑکی تہہ خانے والے مکان کے اندرونی باورچی خانے میں کھلتی تھی اور جس کا صحن کیا تھا کہ ایک خانہ باغ اور پائیں باغ کہے جسے جہاں امرود، آڑو اور لیچی کے پیڑ خوش رنگ رسیلے پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ وہ لال مکان جس کے صحن کے آخری نکڑ پر بچوں کے پڑھنے والے کمرے کی چھت پر انگور کی بیل پھیلی ہوئی تھی اور ڈیوڑھی کے ساتھ والے کچے قطعہ میں موٹے موٹے یمیسا کیلوں کا خوبصورت جھنڈ کھڑا رہتا تھا اور جب وہاں جایا کرتے تو گاؤں ننا (گاؤں والی ننا) اور بچے والی ننا مل کر اپنے ہاتھوں سے موسمی پھلوں کے گچھے اتارتیں اور انگور کے خوشے کاٹ کر سچی چینی کی پلیٹوں اور قابوں میں سجا کر آنے والے بچوں کی خاطر مدارات کرتیں اور اب اگر لال مکان باقی بھی رہ گیا ہو گا تو وہ اس کے خوبصورت مکین خصوصاً وہ دونوں دراز قد کمان سی ابرؤں کے سائے میں خوبصورت غلافی آنکھوں والی ننائیں کہاں ملیں گی۔ بات یہ ہے لوگ تو مرکھپ جاتے ہیں اور گھر باقی رہ جاتے ہیں (بشرطیکہ ان کی جگہ پلازے نہ کھڑے ہو جائیں) مگر کہاں، لوگ بھی کہاں مرتے ہیں۔ سب باقی رہتے ہیں بالکل ہشاش بشاش تندرست و توانا۔ وہی اسی دھند کے دبیز پردے کی اوٹ میں بڑے آرام سے سکون سے گزر بسر کررہے ہوتے ہیں اور دھند چھٹتی ہے اندرہی اندر جب چاندنا سا پھیلتا ہے اور دھوپ چٹخ کر سامنے آتی ہے تو سب کچھ نکھر کر واضح طور پر سامنے آجاتاہے۔ سارے دروبام اور سارے لوگ اور میں ابھی اس وقت بھی اس ایک نام، لال مکان کے سہارے نکلتی صبح صادق کے اجالے میں ان کو دیکھتی ہوں۔ اونچی کرسی اور محرابوں والے دالان کے دروں میں وہ دونوں کھڑی ہیں، نفیس پاپلین یا سلک کے ہلکے آبی، انگوری اور کاسنی رنگ غراروں پر سفید چکن کے کرتوں کے گریبانوں میں چمکتے سونے کے بٹن اور سفید جنگل باڑی کے چنے ہوئے ڈوپٹے اپنے کاندھوں پر ڈالے محرابی دروں میں نصب خاموش مگر جاندار مجسمے۔ ان کے چاندی سے سفید بالوں کے بڑے بڑے جوڑے، مسکراتے لب اور خوش آمدید کہتی آنکھوں کی چمک۔ اور اجلے اجلے پیروں میں سیاہ قینچی والی برمی چپلیں اور آخری در میں لٹکتا ہوا بڑا سا پنجرہ اور اس میں اچھلتا پھڑ پھڑاتا ہوا کاکا تو اتک بہت واضح اور صاف نظر آتا ہے۔ ہاں مگر بات لال مکان کی تو تھی ہی نہیں۔ بتانا تو تہہ خانے والے مکان کا نقشہ تھا۔ پر کیا کیا جائے یہ بات سے بات نکلتی ہی چلی آتی ہے لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ یہ دونوں مکان ایک دوسرے سے اتنے متصل ان میں رہنے والوں کی قرابتیں ایک دوسرے سے اتنی نزدیک کہ ایک کا ذکر کرو تو دوسرے سے صرف نظر کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اچھا تو میں ایسا کروں کہ اب اس کا پورا حدود اربعہ، محل وقوع اور نقشہ آپ کے ذہن میں اچھی طرح جم جائے اور آپ بھی جب چاہیں اس دھند کے دبیز پردے کے پیچھے سے نکال روز روشن کی طرح اس کا نظارا کر سکیں۔


فائدہ کیا؟ کیوں کیا فائدہ!


بھئی فائدہ! یہ کہ ہم تاج محل کے چھوٹے چھوٹے چربے، مرقعے، سنگ مرمر سے بنی ہوئی تاج کے روضے کی مکمل نقلیں شکلیں خرید کر دور و نزدیک کیوں لے جاتے، تاج اہرام مصراور ایفل ٹاور کی نقلوں کو آتشدانوں اور شیلفوں پر کیوں سجاتے ہیں؟


ہاں تو خالہ اماں کا تہہ خانے والا مکان جس علاقے میں واقع تھا وہ ان کا ننھیالی محلہ تھا۔ ان کے ددھیال کے بیشتر افراد اور خود ان کے اپنے والد کی اولاد کے گھر، جدید طرز کی کوٹھیوں بنگلوں اور کوٹجوں کی طرز پر بنے ہوئے، شہر کے جدید بھی اور ایسے قدیم علاقوں میں بھی تھے جو سول لائنز کی براہ راست زدمیں آتے، لیکن خالہ اماں کا گھر نہ صرف اپنی ننھیال کے قدیم محلے تھا بلکہ خالص مشرقی طرز پر تعمیر ہواتھا۔ اور یہ بھی ایک بات تھی کہ ان کے گھر سے متصل لال مکان بھی ان کے ننھیالی اور قریبی اقرباء کا تھا۔


اب میں یوں کرتی ہوں کہ اس گھر میں داخل ہونے سے پہلے آپ کو اس ٹیکرے کی طرف لے کر چلتی ہوں جس کے عین مقابل تہہ خانے والا مکان اور لال مکان واقع ہیں۔ ٹیکرے سے اتر کر ان مکانوں میں داخل ہونے سے قبل تارکول سے پختہ کی ہوئی سڑک کے اس ٹکڑے کو عبور کرنا پڑے گا جو مرکزی سڑک کا وہ ذیلی حصہ ہے جو باہر سے گھوم کر اس محلے میں اتنا تنگ ہو کر داخل ہوگیا ہے کہ جس میں سے ایک لمبی چوڑی کار گزرتی ہوتی تو کسی دوسری سواری گزرنے کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا۔ دراصل ایسے راستے کو ہی عرف عام میں گاڑی بھر رستہ کہا جا سکتاہے۔ چلئے اب ہم ٹیکرے پر آگئے ہیں لیے۔ آپ نے دیکھا، یہ سطح اور چوکور ہے۔ اس وقت یہ سوچنے یا اس کے بارے میں پوچھنے کی ہمیں نہ مہلت تھی نہ فرصت کہ عمرکے اس دور کی اپنی مصروفیتیں اور بکھیڑے ہوتے ہیں۔ سر اٹھانے اور دم مارنے کی مہلت نہیں ملتی۔


اور واقعی اب میں اکثر سوچا کرتی ہوں کہ ٹیکرے والی اس دیوار کے اس طرف کیا ہوگا؟


کہنے کی بات یہ ہے کہ اب ایسے سوالوں کا کیا فائدہ اورکیا تک؟ مگریہ سوال اور نہ جاننے پر قلق اپنی جگہ پر برقرار ہے۔


اچھا اب آپ دیکھیں یہ جو ٹیکر ا ہے نا اس کے دائیں جانب (اگر آپ کی پشت دیوار کی طرف ہے تو) صرف اینٹوں سے بنا ہوا ایک تنگ تنگ سا مستطیل مکان ہے جس کا صدر دروازہ کسی بھاری اور مضبوط لکڑی کا ہے۔ دست برد زمانہ اور مرور ایام نے اس دروازے کی لکڑی کے اوریجنل رنگوں کو کب کا ختم کر کے اس کو ایک نیا رنگ عطا کیا ہے۔ نیلگوں سرمئی رنگ۔ قدامت اور موسم زدگی نے اس کی لکڑی کی چکنی ہمواریت کو ختم کر کے اس پر موٹے موٹے ریشوں کے ابھار پیدا کر دئیے ہیں۔


اب میں سوچتی ہوں کہ وہ دروازہ کتنا موسم زدہ رہا ہوگا (یہ بھی خوب ہے کہ ساری سوچیں اور سارے خیال ذہن میں اب اس وقت اٹھتے ہیں جب کہ ان کے بارے میں سوچنے کی کوئی افادیت باقی نہیں) اور یہ جو دیوار میں کافی کافی فاصلے پر تین عدد آہنی سلاخوں والے جنگلے نظر آتے ہیں یقیناًیہ تین عدد کمروں میں نکالے ہوئے دریچوں کے جنگلے ہیں۔ اس گھر میں ہیگی یعنی مرزا ہیگا اور ان کی بیگم ہیگی رہتے ہیں۔ اب یہاں ایک اور وضاحت لازم آگئی ہے۔ وہ یہ کہ اب سے کچھ بلکہ کافی پہلے جب پھول اور کلیوں کے اسٹیج پر ہیگا کی پتلی نظر آئی تو نہ صرف مجھے یہ احساس ہوا بلکہ اس سبھوں کو حیرت ہوئی کہ اس ہیگا اور ان مرزا ہیگا کے درمیان حیرت انگیز مشابہت بلحاظ صورت بلکہ ان کے تکیہ کلام ہیگا کے بھی حوالے سے موجود ہے۔ ہیگا کا اصل نام کیا تھا، ان کا پیشہ کیا تھا، ذریعہ آمدنی کیا رہا ہوگا؟ وہی بات کہ یہ سب سوال بہت بعد از وقت اٹھے، یعنی ایسے وقت کہ اب ان کا حتمی جواب دینے والے بھی موجود نہیں۔ (پتا نہیں زندگی کی اتنی ہاؤ ہو میں کہ آپ جسے پولیوشن کثافت اور شور شرابا کہیے انسانوں کو ایسی فرصت کیسے ملتی ہے کہ ان گئی گزری باتوں کے معدوم ہو جانے کے بعد بھی ان کے بارے میں اندر سوال اٹھتے رہیں۔) اب ہیگا کے سلسلے میں اس وقت ایک بات کی سختی سے تاکید کی جاتی تھی (ہر گھر میں) کوئی بچہ ہیگا کو صرف ہیگا نہیں کہے گا۔ ان کا ہیگا نانا کہہ کر مخاطب ہونا ہے اور ان کے تکیہ کلام کا یا ان کے خیالات اور اوٹ پٹانگ باتوں پر ہنسنا یا ان کا مضحکہ ہرگز نہیں اڑانا۔ توخیر ہم لوگ تو کیا ان سے مذاق کرتے یا ان کی باتوں پر ہنستے (صاف بات یہ ہے کہ ہمیں تو کوئی اعتراض ہوتا نہیں تھا) البتہ یہ تاکید اور تنبیہہ ان نوجوان لڑکوں کے لیے تھی جو اس وقت ہائی اسکول، کالج یا یونیورسٹی کے مرحلوں میں شریک اور شامل تھے۔ ہاں تو میں اب تک یہی سوچتی ہوں کہ یہ جو پھول اور کلیوں کی اسٹیج پر ہیگا کی پتلی نمودار ہوئی تھی (افسوس کہ مدت سے نظر نہیں آئی) تو کیا اس کی تخلیق میں کسی ایسے ہی کا مشورہ، تجربہ یا مشاہدہ تو شامل نہیں۔ اور میرا خیال یہ ہے کہ ضرور ہے کہ ایسی ہی کوئی بات ہے۔ اس لیے کہ وہ نوجوان لڑکے جن کو تاکید اور تنبیہہ کی جاتی تھی نہیں مانتے تھے اور ان کے پیچھے لگے رہتے تھے اور ان کو شبہ بھی نہیں ہونے دیتے تھے کہ ہیگا نانا، ہیگانانا کرکے جوان کے آگے پیچھے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کی افیون کا کوٹہ تک فراہم کردینے کے بعد ان کے خیالات (خصوصاً فرنگیوں کے بارے میں) کس کس طرح اگلوا لیتے ہیں۔ ہیگا کی نظر میں یہ صاحبزادہ اتنے معتبر اور قابل اعتماد کہ وہ اپنے دل کی ہر اچھی بری بات اور سوچ بے جھجک ان کے سامنے کہہ دیتے۔ حقیقت یہ ہے ہیگا کی ذات ہی ان کا گڈپاسٹ ٹائم تھی۔ ویسے تو اپنی پڑھائی وغیرہ سے بہت مخلص تھے۔


خیر ہیگا ایک مستقل اور جداگانہ موضوع ہے جس پر لکھا جاسکتا ہے۔ قابل ذکر بات اس سلسلے کی بس یہی ہے کہ ان لڑکوں کے نزدیک ہیگا صرف دل بہلاوے کی ایک کچ پتلی نہ تھے بلکہ ان کو پورا احساس تھا کہ ہیگا گوشت پوست کا ایک زندہ انسان بھی ہے جس کے اپنے دکھ بھی ہیں۔ سوانہوں نے ہیگا ہیگی کو کبھی یہ احساس نہ ہونے دیا کہ ان کے ہاتھ میں کوئی ایسی لاٹھی نہیں جو ان بوڑھے دموں کا سہارا بن سکے۔ وہ ان کی ضروریات پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ہیگی کے لیے امورخانہ داری کی خریداری اور سودا سلف لا کر دینے میں بھی دریغ نہ کرتے بلکہ بیماری دکھی میں ان کے دوا علاج کی پوری ذمہ داری بھی خود اٹھاتے۔ یہ اور بات تھی چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا اور کوئی دن نہ جاتا کہ ہیگا نانا زچ ہو کر اپنی چھڑی اٹھا کر کسی نہ کسی صاحبزادے کی پٹائی بھی نہ کردیتے ہوں۔


اچھا اب یہ تو تھا ٹیکرے کا وہ حصہ جہاں ہیگا کا گھر تھا اور خود یہ ٹیکرا کیا تھا؟ ایک کمیونٹی سنٹر کہ جس کو نہ کوئی چلاتا تھا نہ اس کے استعمال کا کوئی معاوضہ ادا کرنا ہوتا تھا۔ محلے میں ہونے والی شادی غمی کی تقریبات میں اس کی مرکزی حیثیت ہوتی تھی۔ یعنی ٹیکرے کی دائیں جانب (وہی دیوار کی طرف پشت ہو تو) لال مسجد تھی جس کے حجروں میں امام اور موذن کے علاوہ دینی مدارس کے ایسے طلباء جو افغانستان، بخارا، کاشغر، سمرقند، مدراس، کلکتہ، ڈھاکہ وغیرہ سے آتے اکثر یہاں مقیم رہتے۔ خوراک کا انکی انتظام محلے کے ہر گھر میں یکساں طور پر رہتا تھا اور بجائے اس کے کہ طالب علم گھر گھر کھانا بٹورتے پھرتے ہر گھر سے سینیوں میں کھانا لگا کر ان کے حجروں پر پہنچا دیا جاتا۔ اب یہ دیکھئے کہ ہر گھر ایک طالب علم کی ذمہ داری ہوتی۔ بغیر کسی دباؤ یا اپیل کے خود کار طور پر یہ نظام بڑی خوبی سے چلتارہا۔ برسوں برسوں اور ہو سکتا ہے آج بھی یہ چلن جاری ہو۔ اس لیے کہ فرنگی محل، مدرسہ فرقانیہ اور ایسے ہی کئی مدارس تو اپنی جگہ موجود ہوں گے ہی اور ان میں طلباء بھی ہوتے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ نہ حکومت کو اس سے دلچسپی ہوگی نہ وہ اس سے کوئی آس لگاتے ہوں گے۔ اچھا تو لال مسجد کے قرب کی بناء پر اسی ٹیکرے پر شامیانے تلے سے اہل محلہ کے جنازے مسجد تک لے جائے جاتے ہیں۔ اسی طرح شادی بیاہ، عقیقے اور ایسی ہی تقریبات کے کھانے اسی ٹیکرے پر پکتے اور اس ٹیکرے کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ اللہ بندے سے لے کر شہر کے ایک سے ایک نامی رکابدار نے اس پر کرسی رکھوا کر براتوں اور ولیموں کی دیگیں چڑھائی اور اتروائیں تھیں۔ اسی ٹیکرے پر صبح کے ناشتوں کے لیے کشمیری چائے کے دیگچے تیار ہوتے اور اسی پر لگے تندوروں میں سے گرم گرم باقرخانیاں اور شیرمالیں نکال کر اندر بھیجی جاتیں، اور یہ تو خیر مسلمہ بات تھی کہ ایک گھر کی شادی کی ہر تقریب اور ہردن میں پورے محلے کی شرکت لازمی تھی۔ سو ٹیکرے پر لگے شامیانوں تلے پڑی کرسیوں پر لوگ ہر گھر سے آآ کر بیٹھتے اور وہ سارے بھیا لوگ وہیں تنبوؤں اور شامیانے تے جھپا جھپ ناشتہ کرکے اپنی اپنی سائیکلوں پر اسکول، کالج اور یونیورسٹی کا رخ کرتے۔ اور والدائیں بچہ لوگ کو بھی باہر ٹیکرے کی طرف ہنکا دیا کرتیں،


’’جاؤ۔ بھائیوں کے ساتھ ناشتہ کرو۔‘‘ ٹیکرے پر شامیانے تلے ناشتہ کرتے ہوئے چھوٹے بھیا بڑے بھیا اور نہ جانے کون کون سے بھیا فوراً بچوں کو اپنی تحویل میں لیتے۔ اپنی نگرانی میں ناشتہ منگوا کر دیتے۔ ذرا سی بھی بدتمیزی پر چشموں کے شیشوں کے پیچھے سے گھورتے اور دبی دبی آوازوں میں گھرکیاں اور جھڑکیاں دیتے جاتے،


’’بدتمیزی نہ کرو۔‘‘


’’صبر سے بیٹھو۔ گڑ بڑ کروگی تو دونو ں کانوں کے بیچ میں تمہارا سر کر دیں گے ہم۔‘‘


بس اسی دھمکی سے جان نکلتی تھی۔ ان دنوں خوش رنگ گلابی گلابی کشمیری چائے کی سمجھ نہ آتی۔ بالکل نمکین الائچی لونگ، دار چینی کی خوشبو والی چائے لگتا تھا سالن میں بالائی ڈال کر پی رہے ہیں۔ لیکن دونوں کانوں کے بیچ سر ہونے کے ڈر سے گھونٹ دو گھونٹ پینا پڑتی۔ نظر بچا کر پیالی میز کے نیچے ڈال دیتے تو پھر ہمیں سادہ چائے بھی مل جاتی۔


بڑی ہنستی مسکراتی ہوا کرتی تھیں وہ صورتیں جو اب نہ جانے کس دیس بستیاں ہیں۔


اچھا تو اب کیا خیال ہے، ٹیکرے سے اتر نہ جائیں۔ جی وہ چند قدم چل کر سیدھے تہہ خانے والے مکان کے صدر دروازے پر کھڑے ہو جائیں۔ کھڑے کیوں ہو جائیں اندر ڈیوڑھی میں نہ چلیں؟ ہاں جی یہ جو ایک بہت کشادہ سا ہال نما کمرہ ہے اسی کو ڈیوڑھی کہتے تھے اور ڈیوڑھی میں داخل ہونے سے پہلے آپ کو صدر دروازے کے ساتھ والی چار عدد سیڑھیاں طے کر نا پڑیں گی۔


ہاں تو یہ آگئی، ڈیوڑھی، ڈیوڑھی کیا ہے ایک کشادہ طویل مستطیل راہدار کہئے جس کے داہنی طرف ایک کشادہ بیٹھک ہے۔ اتنی کشادہ کہ کوئی نشست یا اجلاس منعقد کیا جائے تو کم از کم پچیس کرسیوں کی گنجائش آسانی سے نکل آئے۔ دراصل یہ کمرہ تہہ خانے پر تعمیر کیا گیا ہے اور تہہ خانے کے اندرونی نقشہ ہی پر تیار ہوا ہے یعنی وہی گلی کی جانب کھلنے والی سلاخوں والی کھڑکیاں، کھڑکیوں کے مقابل دیوار میں بالکل ویسی ہی الماریاں، سیاہی مائل بھورے رنگ کے دروازوں والی۔۔۔ ان میں سے ایک الماری کی شلفوں پر چھوٹے بڑے کلامجید، رنگ برنگ خوبصورت جز دانوں میں گرداتے ہوئے رکھے رہتے تھے۔ درمیانی خانوں میں مختلف سائزوں کی تختیاں، سیاہ روشنائی کی دواتیں جن کی روشنائی میں پڑے ہوئے کپڑوں میں سے مرے ہوئے چوہوں کی سی بدبو آیا کرتی (پر یہ بات ہے کہ اسی بدبو والی روشنائی سے تختی پر لکھے جانے والے حروف بڑے روشن اور چمکیلے ہوکر ابھرتے۔) تو ہاں بات ہو رہی تھی ڈیوڑھی کے بغلی کمرے کی۔ دراصل یہ کمرہ بیرونی بیٹھک کی بجائے درس و تدریس کے لیے زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ جہاں ظہر کی نماز کے بعد گھر کے بچے مولوی صاحب سے کلام مجید کے سبق پڑھتے اور سہ پہر کے بعد ماسٹر صاحب بچوں کو پکڑ کر بیٹھ جاتے اور انگریزی حساب اور جغرافیہ کے علوم کے خزانے زبردستی ان کے اندر انڈیلنے کی کوشش کرتے۔ ان کا پلنگ اسی کمرے کے ایک گوشے میں لگا رہتا تھا۔ دیوار کے ساتھ والی دوسری الماری میں ان کی کتابیں اور کپڑے قرینے سے لگے رہتے تھے۔ اب ایسا ہے کہ ماسٹر صاحب کی بھی تھوڑی تفصیل اور وضاحت ہو جائے تو مناسب ہو۔ وہ یہ کہ عموماً ایسے گھروں کی بیرونی بیٹھکوں میں کالج یا یونیورسٹی کا کوئی نہ کوئی ایسا طالب علم مقیم رہا کرتا جو ہوسٹل کی رہائش کے اخراجات کا متحمل نہ ہو سکتا تھا اور کسی معتبر حوالے یا تعارف کی بناء پر ان بیٹھکوں میں اس کے قیام و طعام کا مستقل بندوبست ہو جاتا اور اس تمام بندوبست کا معاوضہ فقط اتناہی ہوتا کہ وہ گھر کے بچوں کو شام کے وقت پڑھا دیا کریں۔ اور خیر یہ تو ظاہر تھا ہی کہ جب بچے ایک دفعہ ان کی شاگردی اور تحویل میں آجاتے تو ان کی نگرانی اور اتالیقی کے جملہ فرائض وہ از خود اپنے ذمے لے لیتے۔ ذرا سی بدتمیزی یا بے راہ روی پر بڑے بھائیوں کی طرح گھورتے ڈانٹتے اور کان نوچنے سے بھی باز نہ آتے۔ نہ جانے ان بیٹھکوں میں قیام کرنے والے کتنے ماسٹر نما طالب علم کالجوں اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر قابل ذکر منصبوں اور عہدوں پر فائز ہوئے اور کتنے ہی مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے عازم انگلستان (ان دنوں امریکہ جا کر پڑھنے کا تصور بھی بعید تھا) ہوئے۔ ان بیٹھکوں میں ان کے کئی کئی سال مقیم رہنے کے باوجود کسی قسم کا کوئی مسئلہ یا الجھن کھڑی نہ ہوتی تھی۔ اور ہاں گھریلو ایمر جنسیوں میں خصوصاً بچوں سے متعلق ایمرجنسی میں یہ بہت کارآمد ثابت ہوتے مثلاً اسکول میں نام لکھوانا یا کوئی بچہ بیمار ہو جائے تو اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے، دوا لانے کے علاوہ بچوں کے کورس کی خریداری بھی اکثر ان ہی کی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی۔ اگرچہ خاتون خانہ کا ان سے پردہ ہوا کرتا تھا لیکن وہ ان کو اپنی والدہ ہی کی جگہ سمجھتے تھے۔ اور وہ بھی ان پر کڑی نگاہ رکھنا اپنے فرائض میں شامل سمجھتی تھیں، ’’آج یونیورسٹی سے اتنی دیر سے کیوں آئے؟‘‘رات کو مقرر وقت سے زیادہ باہر رہنے پر ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا لیکن اس کا فائدہ یہی ہوتا تھا کہ وہ لوگ بخیر و عافیت صحیح و سالم فارغ التحصیل ہو کر جاتے اور زندگی کے دھارے میں شامل ہو جاتے۔ ایک بات ہے کہ ابھی تک ہم اسی ڈیوڑھی میں پہنچ پائے ہیں اور اس کے اس بغلی کمرے سے آگے نہیں جا پا رہے ہیں۔ خیر، ورنہ میرا اپنا تو یہی خیال تھا کہ اس تہہ خانے والے مکان کو اندر کا کونا کونا دکھاؤں اور چپے چپے سے متعلق زندگی کے اس طرز اور منظر کو سامنے لاؤں جو وقت کی دھول کی دبیز تہوں میں گم ہو گیا، ایسا کہ اب کبھی کسی کو نظر آہی نہیں سکے گا، آثار قدیمہ کا بڑے سے بڑا ماہر اس دور کے تمدنی اور معاشرتی انداز کا سراغ تو لگا سکتا ہے زمانے کے تغیر او ربدلتی ہوئی چال کی نشان دہی تاریخ کے اوراق سے ہو سکتی ہے لیکن ایک وقت اور زمانے کے طرز حیات، ان کی ثقافت اور ثقاہت کی روح کو کشید کرکے کسی شیشی میں محفوظ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو صرف دیکھنے والوں کی نظر اور یادوں میں محفوظ رہا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ وہ آنکھیں بھی ایک کے بعد ایک مندتی چلی جاتی ہیں اور وہ سب کچھ عدم کی گہری گھاٹیوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ ایسی چیزوں کے بقاء اور تسلسل کی ضمانت گل پاشی اور پیوند کاری کے عمل میں ہے بالکل جنگلی حیات کے تسلسل کی طرح۔ تواب ہم بور کرتے ہیں کہ فی الحال ابھی اسی ڈیوڑھی میں رہتے ہیں۔ یہ جو بیٹھک کی دیوار ہے اس ساتھ درمیانی سائز کا بان کا پلنگ بچھاہوا ہے اور اس کی ادوائن ایکدم کسی اور تنی ہوئی ہے۔ سرہانے کی طرف دری اور تکیہ (جاڑوں میں یہ بستر لحاف اور توشک پر مشتمل ہوتا ہے) مشتمل بستر لپٹا ہوا رکھا ہوتا۔ کونے میں لکڑی کی ایک چھوٹی اور نیچی سی مضبوط کواڑوں والی الماری ہے جس کے مختلف خانوں میں مختلف قسم کا سامان ہے۔ سب سے نچلے خانے میں چائے کی (جاپانی پھولدار) چند پیالیاں، سلور کی دو درمیانی دیکچیاں، دودھ کی اور چائے کا پانی پکانے والی دیگچیاں، چینی کی بوتل وغیرہ سلیقے سے لگی ہیں۔ الماری کے قریب انگیٹھی رکھی ہے۔ تو جناب یہ ہے کلو خان کی اقامت گاہ۔ کلو خان یہاں کب سے ہیں کب نہیں تھے، یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ ہم نے توان کو آنکھ کھول کر یہیں اسی کونے بالکل اسی انداز سے مقیم دیکھا۔ خالہ اماں کے یہاں ہمارا آنا بھی تو سال دو سال پیچھے ہے لیکن پٹیالے میں بھی کھیلتے کودتے اگر کبھی اس ڈیوڑھی کا تصور ذہن میں آیا تو ساتھ ہی خان بھی اسی جگہ قائم نظر آئے۔ اور یہاں آکربھی تو یوں ہی لگتا جیسے ہم ہمیشہ سے گھر کے معمول اور دستور میں شامل ہیں۔ گھر کے بچوں (اصل باشندوں) کے درمیان روٹین کا حصہ وہی علی الصباح باورچی خانے کے ساتھ والی کشادہ اور ہوا دار صنچی میں تختوں پر بیٹھ کر بالائی، سموسوں اور خستہ ٹکیوں کا ناشتہ کرنا۔ اور اگلے ہی دن سے مولوی ماسٹروں کے سامنے بیٹھ کر اسباق میں شریک ہونا۔ تختیاں لکھنا اور لمبی لمبی سلیٹوں پر ریاضی کے سوال حل کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ذرا ذرا بات پر تنارعے کھڑے کرنا اور مارپٹائی نوچ کھسوٹ کا سلسلہ اسی دیرینہ تسلسل سے باندھ لینا۔ مثلاً اگر ہم نے ایک کوئی بات پٹیالے کی کردی کہ ہمارے پٹیالے میں تو یوں ہوتا ہے تو ہمارے خالہ زاد فوراً اس پر گرہ لگانے بیٹھ جاتے کہ ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے۔ بڑھتے بڑھتے بات نوچ کھسوٹ کشتم کشتا پر جا پہنچتی۔ جیسے مثلاً اگر منہ سے نکل گیا کہ ہمارے پٹیالے میں تو اصطبل ہے اور اصطبل میں گھوڑے ہیں تو وہ فوراً اس کا توڑ کرتے۔


’’ٹیوں ٹمہارے وہاں ڈھوڑے ہیں ٹوٹیا ہمارے یہاں ٹو شیر ہے۔‘‘


’’جھوٹے کہیں کے۔ شیر تمہارا نظر تو نہیں آرہاہے۔‘‘


’’ٹو ٹمہارے ڈھوڑے ٹب نظر آرہے ہیں۔‘‘


’’تم ہمارے ساتھ چلو پٹیالے تو دکھا دیں گے۔ مگر پہلے تم اپنا شیر تو دکھاؤ۔‘‘


پھر وہ فرماتے ’’شیر تو تہہ خانے میں بند ہے۔‘‘


’’چلو، پھر کیا ہوا۔ تہہ خانے میں چل کر دیکھ لیتے ہیں۔ چلو آؤ۔‘‘


ہماری آمادگی پر ان کو فوراً یاد آجاتا کہ ’’سردیوں میں تو تہہ خانے میں تالہ پڑا ہوتا ہے۔‘‘


’’چلو، تم کھڑکی میں سے دکھا دو۔‘‘ (سچی بات یہ ہے اس وقت کچھ کچھ یقین بھی ہورہا ہوتا کہ ہو سکتا ہے شیر تہہ خانے میں موجود ہو۔)


’’بات یہ ہے کہ میں تو بھول ہی گیا تھا۔ اس کو تو سردی لگ گئی تھی۔ بیمار ہو گیا تھا۔ ہم نے اس کو زو (چڑیا گھر) بھیج دیا۔‘‘ نوبت یہاں تک پہنچ کر غصہ تو آنا ہی ہوتا ہے۔


’’جھوٹے۔ گپ باز۔‘‘ پیٹھ پر دھموکے (دونو ں طرف سے) ایک کے بال دوسرے کے ہاتھ میں پہنچ کر صورت حال گتھم گتھا ہونے لگتی۔


بڑوں میں سے کوئی نہ کوئی آکر صورت حال پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ حکم دیتیں، ’’چلو جاؤ کلو خان کے پاس۔‘‘


اب پوچھنے کی بات یہ ہے کہ آخر کلو خان جیسے نمانے شخص میں وہ کیا بات تھی کہ جس کی بنا پر مائیں اپنے بچوں کو کلوخان کی تحویل میں دے کر بے فکر ہو جاتی تھیں؟ تو اس سوال کا جواب دینے کے لیے کلو خان کی پوری اور مکمل ذات کو سامنے لانا پڑے گا۔


وہ اسم بامسمیٰ تھا یعنی خاصی کالی کل جھنویں رنگت، ناٹا قد اور چوکھونٹا سراپا، پھیلی اور بیٹھی ہوئی ناک (یقیناًکسی دراوڑی، بھیل یا کول قبیلے سے تعلق کی بناء پر) چوڑے چوڑے ہاتھوں کی انگلیاں ٹیڑھی میڑھی اور گانٹھوں دار تھیں۔ تن پر سستے مارکین کا پاجامہ اور ڈوریے کی قمیض یا موٹی ململ کا بند گلے کا کرتا۔ کلوخان کے گلے میں سیاہ رنگ کا ایک ڈورا پڑارہتا جس میں چاندی کاباریک بنا ہوا تنکا اور چاندی کی ایک بہت چھوٹی سی چمچے نما چیز پڑی رہتی تھی۔ وہ اس تنکے کو خلال اور چمچی نما چیز کو کن کھدنی کہتے تھے۔ خلال سے وہ اپنے دانت کریدتے اور کن کھدنی سے کا کھجاتے اور اس کے اندر کی میل نکالتے تھے۔ اس کے علاوہ کلوخان کے کرتے کی جیب میں ایک میلا سا ڈوریوں والا بٹوا بھی رہتا تھا جس میں وہ کتری ہوئی چھالیہ، تمباکو کے علاوہ لونگ اور چھوٹی الائچیاں رکھتے تھے۔ ویسے تو ان کے پاس ایک چھوٹا پٹاری پاندان بھی تھا جس کی قلعی ختم ہو کر سیاہی مائل سرمئی ہو گئی تھی۔ یہ پاندان ایک چھوٹے سے نعمت خانے پر دھرا رہتا تھا۔ دراصل کلو خان ہمارے مرحوم خالو ابا (جو محکمہ انہار میں ڈپٹی تھے) کے پیش خدمت تھے۔ ان کی اچانک وفات اور اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بے در اور بے گھر ہو گئے تھے۔ اب دنیا میں ان کا کوئی ٹھکانہ تھا نہ پرسان حال۔ ظاہر ہے کہ اب اس ڈیوڑھی کا یہ گوشہ ہی ان کا مستقل ٹھکانا تھا۔ ان کا کام بس اتنا ہی تھا کہ سودا سلف لادیں یا وقت بے وقت ادھم برپا کرنے والے بچوں کو کنٹرول کریں۔ اس کا معاوضہ ایک مختصر سی رقم کے علاوہ دو وقت کا کھانا تھا جو انہیں مل جاتا تھا۔ صبح شام کے علاوہ وقت بے وقت کی خواہش کے تحت بننے والی چائے کا خرچہ ان کے اپنے ذمے تھے جو وہ اپنی پنشن کی حقیر سی رقم سے نکالتے تھے۔


اب سوال یہ ہے کہ کلو خان کے بارے میں اس ساری تفصیل سے وہ کیا خاص بات نکلی کہ جس کی بناء پر وہ مائیں، جو بچوں کی تربیت، رکھ رکھاؤ اور اخلاق اور عادات کے سلسلے میں بہت محتاط ہوا کرتی تھیں، اپنے بچوں کو کلوخان کے سپرد کرکے بے فکر ہو جاتی تھیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کی کوئی ایسی قابل ذکر بات تھی ہی نہیں۔ وہ تو ایک صاف ستھرا رہنے والا سفید پوش تھا جس کے اندر کوئی بھی مکروہ یا ناپسندیدہ لت یا بات موجود نہ تھی۔ لتوں میں جو شدید قسم کی لت کہی جائے وہ تھی دودھ پتی کی چائے یا پھر بڑے اہتمام سے پان کھانا۔ کلوخان دودھ پتی کی چائے کے شوقین ہی نہیں دھنی تھے۔ گرمی میں بھی صبح شام کے علاوہ رات اور دوپہر کے کھانے کے بعد چائے کا ایک پیالہ پئے بغیررہ ہی نہ سکتے تھے اور جاڑے کے موسم کی تو بات ہی کیا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ان دنوں تو ان کی انگیٹھی میں آگ روشن ہی رہتی تھی جس پر سلور کی جھم جھماتی دیگچی میں چائے ابلا کرتی تھی۔


جہاں تک بچوں کی ان سے دل بستگی کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں یہی کہاجا سکتا ہے کہ دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی۔ کلوخان کے نزدیک بچوں کی صحبت سے زیادہ اہم اور دلچسپ کوئی مشغلہ نہ تھا اور بچوں کے لیے وہ کیا تھے؟ میرا نہیں خیال کہ ان کو ٹیلی ویژن سے مماثلت دی جا سکتی ہے۔ ہنسی کا گول گپا، جادو کی پٹاری، طلسمات کی ایک دنیا اور ہزار داستان، الف لیلہ کی شہرزاد اور۔۔۔ اور۔۔۔ کیا بتاؤں؟ درپردہ ایک ماہر نفسیات، معلم اخلاق اور مست خدا درویش اور یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ کیا کبھی کسی نے ایسی کالی کل جھنویں صورت، پہاڑی بلے جیسی تکونی آنکھوں، پھڈی ناک، ٹیڑھے میڑھے پان آلودہ ناہموار دانتوں اور ناٹے قد والی چوکھونٹی شخصیت کو ان تمام صفات سے منسوب کیا ہوگا جو میں نے ان کے بارے میں بیان کی ہیں؟ وہ ہوں یا نہ ہوں لیکن ہمیں تو ان کی صحبت میں بیٹھ کر کچھ یوں ہی لگتا تھا۔ ایک دم ہنسی کا گول گپا کہ بچہ لوگ ان کے پاس جاتے ہی کھل کھل ہنسنے لگتے تھے۔ اور کلو خان بچہ لوگ کو کہانیاں سنانے سے پہلے ان کی خاطر مدارات جی بھر کر کرتے تھے۔ مثلاً سب سے پہلے تو وہ اپنی صدری یا کرتے کی جیب سے ایک عدد کپڑے کی تھیلی برآمد کرتے اور سب بچوں کو اپنی چارپائی پر حلقہ بنا کر بیٹھ جانے کا حکم دیتے اور بچے بالکل مسمریزم کے معمولوں کی طرح چارپائی پر حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے اور بڑی بے چینی اور بے تابی سے تھیلی کی طرف ندیدے پن سے دیکھتے ہوئے۔ اور اب وہ آہستہ آہستہ تھیلی کا منہ کھولتے کھولتے ایک منتر کی طرح وہ مخصوص بول دہراتے جن کو ہر روز بڑی باقاعدگی سے سننے کے باوجود سنتے ہی ہنسی کے مارے لوٹنا شروع کر دیتے اور ساتھ ہی کلو خان تھیلی میں سے نکال نکال کر مٹھی مٹھی بھر چنے ہمارے ہاتھوں میں دیتے دیتے فرماتے ’’تو ہاں تو بچوں سناؤ اپنی بانی‘‘ اور ہم سب جھوم جھوم کر اونچی اونچی آوازوں میں کورس کے طور پر کہنا شروع کرتے،


’’کریما بہ بخشا کے بھونجے چنے
جو بچوں نے مانگے تو دو دو بٹے
جو باگڑ بلے نے مانگے تو جوتے پڑے۔‘‘


باگڑ بلے کے لفظ پر تمام بچے کنکھیوں سے کلو خان کے چہرے بشرے کو دیکھ دیکھ کھوں کھوں کرکے ہنسنا شروع کر دیتے۔ کلوخان نے کوئی دھوپ میں تو اپنے بال سفید کیے نہ تھے۔ خوب جانتے تھے کہ بچوں کے مانی الضمیر میں کیا ہے۔ اسی دم کو بچہ آواز نکالتا،


’’جو باگڑ بلے نے مانگے تو جوتے پڑے
جو کلو نے مانگے۔۔۔ جو کلو نے مانگے۔‘‘


فوراً ہی کلوخان ٹکڑا لگاتے،


’’جو کلونے مانگے تو گھونسے پڑے۔‘‘


بچے دھم ہو جاتے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم کسی طرح گوارا نہ کر سکتے تھے کہ کوئی کلو خان کو گھونسے تو الگ بات ہے ٹیڑھی نظر سے دیکھے۔ کلو خان ہنستے ہنستے سنجیدہ ہو کر کہتے ’’دیکھو بچو یہ جو بانی ابھی ہم نے کہی ہے وہ تو ہماری ہے۔ مگر اصل بانی اور ہے اور وہ بھی یاد کر لو۔ ہاں بھئی منہ زبانی یاد کرنا پڑے گی۔ اور میں تم کو اب گرما گرم چائے بنا کر پلاتا ہوں۔‘‘


اپنی چھوٹی سی انگیٹھی روشن کر کے وہ دیگچی میں دودھ پتی کے ساتھ لونگ اور سبز الائچی پکانے بیٹھ جاتے۔


’’ہاں تو بچو جب تک چائے پکے تم میرے پیچھے پیچھے اصل بانی بولو۔ ‘‘ ہم سب ان کی آواز میں آواز ملا کر کہتے،


’’کر یما بہ بخشائے برحال ما
کہ ہستیم اسیر کمند ہوا
نداریم غیر از تو فریاد رس
توئی عاصیاں را خطا بخش و بس۔‘‘


اب اس وقت اگر ہم میں سے کوئی ایک بھی ہوش مند ہوتا تو کلو خان سے اتنا تو سوال کر لیتا کہ کلو خان آپ تو چٹے ان پڑھ ہیں۔ آپ کو فارسی کی یہ بانی کس نے سکھائی۔ پر وہ تو عجب بے ہوشی بلکہ مدہوشی کا عالم تھا۔ اتنی سدھ بدھ کس کو تھی کہ ایسی باتیں کرکے کلو خان کو بھی مکدر کرتا اور اپنے آپ کو بھی پریشان۔ پر اب مجھے اس کا جواب واضح طور پر مل چکا ہے کہ میں سوچتی ہوں کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھروں میں بند اپنے تختوں کے چوکوں یا چارپائیوں پر بیٹھی بڑی بوڑھیاں تک اپنی دن بھر کی گفتگو میں بے شمار مرتبہ فارسی کے مقولے، فارسی کے ضرب الامثال اور اشعارے بے تکلف اپنی مادری زبان کی طرح بولتی اور استعمال کرتی تھیں۔ ہما شما اور آئے گئے ان پڑھ لوگوں کی زبانوں پر ان گنت فارسی الفاظ چڑھے ہوتے تھے اور وہ کسی نہ کسی حد تک ان کا مطلب بھی اخذ کر سکتے تھے۔ توہاں بات یہ ہو رہی تھی کہ ہم مٹھیوں میں دبے ہوئے موٹے موٹے سوندھے سوندھے سنہرے اور گرما گرم چنے پھانکتے چباتے رٹے لگاتے،


’’کہ ہستیم اسیر کمند ہوا کہ ہم ہستیم اسیر کمند ہوا‘‘


حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت کمن ہوا کا ہمارے آس پاس گز رنہ تھا۔ بس لگتا تھا کہ یوں ہی یہ گرما گرم موٹے موٹے سوندھے سوندھے سنہرے سنہرے چنے ان کے کالے کالے چھلکوں سمیت چبانا اور اوپر سے کلو خان کی دودھ پتی لونگ الائچی والی چائے پی لینا ہی زندگی کی معراج ہے۔ ایمان سے آج بھی اگر دودھ پتی والی چائے پینے کو مل جاتی ہے تو اول ہی گھونٹ مجھے خالہ اماں کے تہہ خانے والے مکان کی ڈیوڑھی کے اس گوشے میں لے جا کر کھڑا کر دیتا ہے جس کے فقط ایک گوشے میں اپنے نام جھام کے ساتھ کلو خان مقیم ہیں۔ جی ! بالکل مجھے اقرار ہے کہ میں نے مقیم کے بعد صیغہ حال استعمال کیا ہے۔ اس لیے میں سچ کہتی ہوں کہ کلو خان اب تک وہیں اسی گوشے میں موجود ہے اپنی تمام خصوصیتوں اور عادتوں سمیت۔ اور پہلے تو کبھی اپنے اس کونے کو چھوڑ کر وہ ادھر سے ادھر ہو بھی جاتا ہوگا لیکن اب وہ وہاں ہمہ وقت موجود ہے۔ پتھر سے بنے ہوئے مجسمہ کی طرح اپنی جگہ اپنے مقام پر گڑا ہوا مضبوطی سے نصب ہوا۔ اپنے ناٹے اور گھٹے ہوئے قد، کل جھنویں رنگت، تکونی تکونی اور اپنی پھیلی پھیلی دراوڑی ناک سمیت۔ بظاہر چپ چاپ لیکن اندر ہی اندر ہلتے ہوئے ہونٹوں سے کہتا ہوا، نداریم غیراز تو فریادرس۔۔۔ اس ہوا وہوس سے بھری دنیا میں کون کس کا فریاد رس ہوتا ہے۔ صومالیہ، موغا دیشو ہو، بوسنیا ہو یا پھر خستہ و درماندہ نشاں کشمیر کی مرغزار اور گلرنگ وادیوں اور بے شمار کدلوں سے اٹھتی ہوئی نحیف و نزار چیخوں کی صدا۔ کمند ہوا سے جکڑی ہوئی اقوام غالب نے بڑی سختی سے اپنے کانوں کے سوراخوں میں اپنی مضبوط انگلیوں کو ٹھونس رکھا ہے۔۔۔ کوئی کسی کی نہیں سنتا ہے۔۔۔ او رشاید عاصیوں کے فریاد رس اور خطاء بخش نے بھی آدم زاد کی من مانیوں سے روٹھ کر اپنا منہ ادھر کو (نہ جانے کس طرف کو) موڑ رکھا ہے۔ تو پھر گھبرا کر، بوکھلا کر میں اس طرف کو جا نکلتی ہوں جہاں کی تنگ گلی کے داخلے کے ساتھ ساتھ ہی ٹیکرا ہے۔ ٹیکرے کے خاتمے پر بائیں ہاتھ ہیگا کا مختصر سا لکھوری اینٹوں والا خستہ اور درماندہ مکان ہے اور بائیں جانب ٹکڑ پر کھڑی لال مسجد ہے۔ میں گلی کے اندر داخل ہو کر چلتی چلتی ٹیکرے کے عین مقابل تہہ خانے کی کھڑکیوں کی سلاخوں کے پاس چپ چاپ کھڑی رہتی ہوں۔ مجھے کچھ پتا نہیں چلتا کہ میں کس راہ سے اندر داخل ہوئی ہوں۔ خالہ اماں کے صحن کی کیاریوں میں گل عباس کھل رہا ہے۔ بہت تیز گلابی، کاسنی اور بسنتی پھولوں کی مہک ہر سو پھیل رہی ہے۔ اور موتیے کے مضبوط پودوں پر موٹی موٹی موتیا کلیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اور اونچی بلکہ بہت اونچی دیوار پر بیل پھیلی ہوئی ہے۔ مجھے پہلے بھی اس بیل کا نام نہیں معلوم تھا۔ بس پھول اچھے لگتے تھے اس کے۔ صحن سے چل کر اونچی کرسی والے برآمدے کے وسط میں لگے تختوں کے چوکے پر خوش رنگ جازم بچھی ہے۔ دیوار کے ساتھ اجلے اجلے غلاف میں کسا گاؤ تکیہ لگا ہے اور دالان کے اندرونی گوشے کے ایک درے میں ایک جانب رنگین پایوں والی نیچی سی پلنگڑی پر شفاف بے داغ اور بے شکن بستر لگا ہے۔ ایک جانب نماز کی چوکی لگی ہے۔ مخملی جانماز کا ایک کونا الٹا ہوا ہے اس خیال سے کہ کہیں شیطان اس پر نماز پڑھنے نہ کھڑا ہو جائے۔ برآمدے کے ساتھ والے کمروں کی سادہ اور ستھری آرائش ویسی ہی پرسکون ہے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی نیم تاریک سی فضا کا سکون مجھے نندا سا کئے دے رہا ہے اور میں ناوقت سو جانے کے خوف سے برآمدے سے اتر کر صحن کے دوسری جانب صنچی میں جا کھڑی ہوتی ہوں۔ ہر شے اسی طرح اپنی جگہ موجود ہے۔ بڑا سا جالی دار نعمت خانہ، کھانا کھانے والی طویل چوکی، برتنوں سے آراستہ دیوار گیر الماری اور خوبصورت نقش ونگار والا چائے کا سماوار رکھا ہے جس کے نچلے حصے میں انگارے دہک رہے ہیں۔ اور ٹونٹی سے بھاپیں نکل رہی ہیں، خوشبودار چائے کی لپٹیں۔ گھر بھر میں ایک نفس بھی موجود نہیں۔ برآمدے کے آخری در سے لٹکتا طوطے کا پنجرہ خالی ہے۔ پنجرے کی کھڑکی کھول دی ہے کسی نے۔ میں کسی کو بھی تلاش نہیں کر رہی ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ باورچی خانے کی کھڑکی سے ادھر لال مکان میں انار پر کلیاں پھول بن بن کر کھل رہی ہیں۔ کیلے کے جھاڑ میں لگے کیلوں کی گاچھ کو کسی نے کاٹا بھی نہیں اور وہ جھاڑ میں لگے لگے ہی پک کر پیلے پڑ گئے ہیں اور لیچی کے پیڑ کی ڈالوں سے لٹکتے سرخ سرخ رسیلے لیچی کے گچھے بالکل تیارہیں۔ پر ادھر بھی درختوں سے پھل اتار اتارکر کھلانے والی نانیاں جانے کدھر کو نکل گئی ہیں۔ موسم کے ساتھ ساتھ اڑ جانے والی مرغابیوں کی ڈاروں کی غول میں راہ بھٹک کر کہیں کی کہیں پہنچی ہوں گی اب تو۔


میں وہیں سے مڑ کر چلتی چلتی ڈیوڑھی میں آجاتی ہوں۔


’’پرندو کا کوئی اعتبار بھی تو نہیں، پرندے تو اڑ ہی جاتے ہیں۔‘‘ جیسے کوئی کہتا ہو۔


لیکن یہ کیا! یہ کلوخان تو اسی طرح اپنے اسی کونے میں مقیم ہے۔ وہی سامان، وہی بھاری بھاری پایوں والا پلنگ، وہی دری میں لپٹا بسترا ور چارپائی تلے رکھا ٹین کا صندوق جیسے کوئی مسافر تیار بیٹھا ہو، اگلی گاڑی پکڑنے کی خاطر۔


میرے قدم بھاری پڑرہے ہیں۔ چلتے چلتے تھک جو گئی ہوں۔ دل بھی تو بہت بھاری بھاری ہے۔ جیسے کوئی مال گاڑی بہت سے اسباب سے لدی پھندی دھک دھک چلتی ہو۔


میں کلو خان کے پلنگ کے پاس جا کھڑی ہوئی ہوں۔ وہ پلنگ پر اسی جگہ اسی طرح جما بیٹھا ہے۔ سرمے سے تراشے ہوئے سنگین اور بدصورت مجسمے کی طرح۔ میں نے اپنے آپ کو کلو خان سے کہتے ہوئے خود سنا ہے، ’’کلو خان، میں آپ ہی آئی ہوں مجھے کسی نے شرارتیں اور غل غپاڑہ کرنے پر سزا کے طور پر آپ کے پاس نہیں بھیجا ہے۔ کلوخان، جی بہت اداس ہے۔ دل بہت بھاری ہے۔ آپ دیکھ رہے ہو نا کہ کیا کچھ ہو رہا ہے؟ دیکھو، کوئی کسی کی نہیں سن رہا ہے اور لوگ بہت بول رہے ہیں۔ خون بہت بہہ رہا ہے۔ ہر طرف بساند ہے، سڑاندہے اور فضا میں گھروں کے جلنے کی بو ہے اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’یہ کثافتیں ہیں۔ کارخانے بند کردو، فیکٹریاں جلادو۔ تیسری دنیا کو تمام کثافتوں سے پاک کر دو۔‘‘


کلوخان کے سرمئی مجسمے کے سر کو جنبش ہوئی ہے جیسے کہتا ہو ’’سب سمجھتا ہوں۔‘‘ اس کے گلے میں سیاہ ڈورے میں بلا ہوا چاندی کا خلال اور کان کھدنی اسی طرح چمک رہا ہے اور وہ اپنی جیب سے تھیلی نکال رہا ہے۔ مجھے پتاہے تھیلی میں بھنے ہوئے سوندھے سوندھے چنے ہیں جن میں کشمش اور شکر چڑھے الائچی دانے ملے ہوئے ہیں۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اب چنے باہر آئیں گے اور کلو خان کی آواز سنائی دے گی،


’’کریما بہ بخشا کے بھونجے چنے۔ جو بچوں نے مانگے تو دودو بٹے۔ جو باگڑ بلے نے مانگے تو۔۔۔ تو۔۔۔ ‘‘


مگر سنو تو، یہ کلو کے سرمئی مجسمے کے ہلتے ہونٹوں سے کیا صدا آتی ہے اور آتی ہی چلی جاتی ہے،


’’کہ ہستیم اسیرکمند ہوا۔ اسیرکمند ہوا۔۔۔ ‘‘


اور اب میں نے چونک کر ٹی وی اسکرین کی طرف دیکھا ہے۔ سی این این کی نیوز ریڈر کے منہ سے نیوز آئی ٹم کے آخری الفاظ یوں سنائی دیئے ہیں،


Nearly 3000 people have died in Bosnian operations.