دستک نہ دو -(اقتباس)

شریف کے کُرتے کے مونڈھوں میں لیس لگی تھی۔ تیل سے چکنائے ہوئے بالوں پر دوپُلی ٹوپی جمی تھی۔ کندھے پر چار خانے کا رومال تھا۔ کھلے کھلے پائینچوں کے نیچے سے اس کے پرانے پالش کیے ہوئے جوتے جھانک رہے تھے اور دہانہ ایک کان سے دوسرے کان تک پھیلا ہوا تھا۔

"بیگم صاب! ہم جُما پڑھنے جارہے ہیں۔" اس نے حسبِ عادت اعلان کیا۔

"ارے شریف! اتنی جلدی؟ آج تو حد کررہے ہو! " گیتی نے ٹوکا "اور بناؤ سنگھار تو دیکھو جیسے عید کی نماز پڑھنے جارہے ہو۔"

"تو اور کیا! یہ عید کی نماز سے بھی زیادہ ہے۔" شریف کی آواز معمول کے خلاف اونچی تھی اور آنکھیں چمک رہی تھیں۔

"پاکستان بننے کے بعد پہلے پہل تو جُمّا پڑا ہے۔ مسجد میں مولوی صاحب نے شامیانے لگوائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کام تو اب شروع ہوا ہے۔"

"تو کیا تمہارے مولوی صاحب پاکستان جارہے ہیں؟"

"پاکستان کون جائے رہا ہے بِٹیا! ہم تو خوشی کررہے ہیں۔ نہ ہم جائے رہے ہیں نہ مولوی صاحب۔"

"تو پھر تم سے مطلب؟ "

"بچہ ہو ابھی، تم کیا جانو ۔۔۔ بیگم صاحب سمجھیں گی ہماری بات۔ کیوں بیگم! کبھی عرب کا، ایران یا ترکی کا روپیہ یا ٹکٹ نظر آ جاتا تو ہم کیا، اچھے اچھے آنکھوں سے لگا لیا کرتے۔ صاب تک چوم لیا کرتے تھے اس روپے کو۔ کاہے سے کہ اپنی مسلمان حکومت کا ہوتا تھا۔"

شریف کی آواز میں خطابت آ چلی تھی۔ "پھر بیگم صاحب، آپ بتائیے، کبھی خواب میں بھی سوچا ہوگا کہ اپنے ملک میں پاس کے پاس ایک مسلمان حکومت بن جائے گی۔ ارے ہم تو اس کی خیر منائیں گے۔ ہمارے نصیب کب تھے ایسے۔"

اس کی آواز کا تسلسل بکھرگیا اور ٹکرے ٹکرے ہو کر ہچکیوں میں بدل گئی۔

اس روز شریف بغیر کھانا کھائے ہی جمعہ پڑھنے چلا گیا۔ عصر کی نماز کے لیے جاتے جاتے اماں بیگم نے کہا "بس یہی تو شریف کی حرکتیں ہیں۔ اب شہر بھر کے صدقے ہوتے اور تقریریں کرتے پھر رہے ہوں گے جوش میں۔"

اور جب وہ سلام پھیر رہی تھیں تو ایک اُچکا سا نوجوان لڑکا بڑے مودب طریقے سے اِدھر اُدھر دیکھتا ان کے سامنے آ کھڑا ہوا اور بغیر کسی تمہید کے اس نے کہنا شروع کیا۔

"نیم والی مسجد میں خطبے کے وقت بلوائیوں کا حملہ ہوگیا۔ کئی نمازی شہید کردئیے گئے ہیں۔ آپ کا ملازم شریف بھی کام آگیا ہے۔ آپ اس کی گھر والی کو بتا دیں۔"

وہ ساکت بیٹھی رہ گئیں