چھوٹا

پرانے مصروف اورپُرہجوم بازارکے اُس جانب طویل و عریض قطعۂ زمین، بازار کے رواں دواں پُرشور، قدیم اورجدید ٹریفک کی ہاؤہوکے باوجود ویران اوربے آباد پڑا دشت تنہائی کا تاثر دیتاتھاکہ اس کا کبھی کاکملاتا سبزہ برسوں سے خشک بلکہ گیاہِ خشک تر کا تاثر دینے لگا تھا۔ اورکسی زمانے میں خودرَو پودے درختوں کی صورت اختیارکرچکے تھے۔ ان کے وہ نرم گرم سائے بھی پانی کی کمیابی اور سیرابی سے محرومی کے سبب معدوم تھے۔
پھریوں ہوا کہ ویرانی اور افسردگی کی طویل مدت نے جیسے انگڑائی سی لی ہو۔ گویا ایک بار پھر قطعۂ زمین کو اپنا آپ ہونے کا احساس ہوا ہو اور اپنے موجود ہونے پر اصرار کر رہا ہو۔ البتہ اپنے ارادے اور احساس کے اثبات کے لیے اُسے افرادی قوت درکار تھی۔ سووہ ایک مضبوط قدکاٹھ والے درشت اور تندخوشکل والے آدمی اور اس کے ہم راہ کچھ نوعمر لڑکوں کی شکل میں مل گئی۔
اور پھر یوں ہواکہ سخت چہرے اور کڑے تیوروں والے نگران کے اردگرد چند نوخیز و نوعمر پھول سے کھلتے ہوئے مسکراتے چہروں والے اپنے کچھ بھی کرڈالنے والے حوصلوں پربے خبری میں نازاں وہ لڑکے، اس کی ہر آواز پر لبیک کہتے ہوئے، اس کے درشت آوازوں میں دئیے ہوئے احکامات کی تعمیل میں دوڑتے بھاگتے ایسے پھررہے تھے، جیسے اس میدان کی صفائی کا یہ کام مشقت نہیں، بلکہ کھیل کا میدان ہو۔ اور وہ شخص تھا ہرگھڑی دوگھڑی کے بعد کرخت آوازمیں کسی ٹارگٹ کی طرف اشارہ کرکے آوازلگاتا،’’اوئے چھوٹے۔ یہ اِس پاسے (اس طرف) ویکھ۔‘‘ اور وہ سارے کے سارے چھوٹے، پھولوں کا رس پی کرشہدبنانے والی مکھیوں کی طرح اِس پاسے (سمت) ٹوٹ پڑے کہ وہ ان سب کو اجتماعی طور پرایک ہی نام سے پکارتا، ’’چھوٹے اوئے چھوٹے‘‘۔ کہ وہ مردِ نادان نہیں جانتاتھاکہ ’’چھوٹا‘‘کیاچیز ہے اور کس قوت کانام ہے کہ چھوٹااپنے آپ سے بے نیاز ہے۔ وہ اردگرد سے باخبرہوکربھی بیگانہ سا رہتا اور کچھ کرتے رہنا چاہتا ہے، جیسے کوئی ان کے کانوں میں سرگوشیاں کرتارہتاہے، کُن کُن اورپھرفیکون توخودبخود ہی ہوجاتاہے۔
کومل سے نرم نرم، سیاہ سانولے صاف رنگتوں کے گندے، میلے چہروں، شب چراغوں کی سی دمکتی آنکھوں والے چھوٹے، اس پورے قطعہ زمین پرنادیدہ قوتوں کی طرف چھائے اور ایسی ناقابلِ یقین مستعدی اورسلیقے سے دوڑے بھاگے پھرے، جیسے بہت بڑے ہوں، بہت اونچے ہوں۔ کوہِ گراں، پہاڑوں کی چوٹیوں سے بھی اوپراوپرکوجانے والے۔
میدان سے ویرانی اور اُداسی رخصت ہونے لگی، چارسواُڑتے ہوئے غولِ بیابانی جیسے شاخ پر گم ہوئے خشک پتوں نے پہلے خود آگ کھائی اور پھر خود آگ اورآگ سے راکھ بنے۔ وہ خس وخاشاک جوکبھی سبزۂ نورستہ سے گندم گوں سنہرے سے پیلے خس و خاشاک کی صورت نہ جانے کب سے سویا پڑا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے جاگنے لگابلکہ خوابِ گراں سے بیداری کے مرحلے میں داخل ہوا۔
علاقے کی ہاؤہو، ٹریفک کے پُرشوراور گاہے گاہے جام ہوجانے والے ہجوم میں کسی کوخبر ہی نہ ہوئی کہ کب اس میدان میں آبادی اورگہماگہمی کاڈول پڑنے لگاہے۔ میدان کے عین وسط میں بانسوں اورپھونس سے بناہواایک چھپرجوطول میں زیادہ اورعرض میں قدرے کم تھا،نمودارہوگیا ہے اوراُس کے تلے کسی عام پھیری والے ترکھان کے ہاتھوں بنی بھدے اورسستے کاٹھ کی کرسیوں کے ساتھ ساتھ تین ٹانگوں پرٹکی ہوئی میزیں لگائی جارہی ہیں، جن کے پٹڑے ذراسی ٹھیس لگنے پرپھیل پڑتے ہیں۔ کیوں؟ کس واسطے؟ کس نے؟ کاسوال ہی پیدانہیں ہوتاکہ سوال کرنے اورجواب لینے کی فرصت کسے ہوتی ہے۔ البتہ جب چھپرکے اُس جانب سے بریانی، سیخ کباب اوردہکتے ہوئے انگاروں والی لمبی لمبی دیسی انگیٹھیوں پرنیم برشت کم سوختہ چرغوں ، تندورسے نکلتی گرم گرم خمیری روٹیوں کی مہک چارسوپھیلی توچشمِ فلک توکب سے دیکھتی رہی، پرآدمی کی نظر نے دیکھا! تواچھابھئی یہ توبھرپورہوٹل کا ڈول پڑچکاہے جس کے ایک سرے پرکاؤنٹرسے مشابہ تھڑے پرگدی جمائے رقم کی صندوقچی سامنے دھرے وہی کرخت چہرے کڑے تیوروں والاشخص بیٹھاپہلے سے بھی زیادہ سخت آوازمیں مسلسل احکامات جاری کررہاہے اورمجرور وہی ’’چھوٹا‘‘۔ کون ساچھوٹا؟ کتنے چھوٹے یافقط ایک چھوٹا، کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ اس لیے کہ چھوٹا۔۔۔ ایک چھوٹایاکئی چھوٹے، اس کے احکامات کی تعمیل اتنی لپک جھپک اورتیزی سے کررہے ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ کتنے چھوٹے یافقط ایک سنگل واحد چھوٹایہ خدمات انجام دے رہاہے اورمطالبہ کرنے والی آوازوں کی ہمراہی میں مالک کی آوازیں بہت۔ ’’اوئے چھوٹے ہاف سیٹ دودھ پتی، آگے والی نمبرچارٹیبل۔ چھوٹے ! اُوئے ! ایک پیالہ پائے، دونان ، بیچ والی دس نمبر ٹیبل۔ چھوٹے، ٹھنڈاپانی تین گلاس تیجی نمبرٹیبل پچھلے پاسے۔ بِل پھڑ(بِل پکڑ)۔‘‘ چھوٹالپک جھپک آنکھیں مچ مچ کرتی، ناک سڑپتا، میلی بدرنگ جینز، کف کھلی آستینوں والی قمیص میں اِدھر سے اُدھرجیسے بجلی کا کوندا ہو کہ لپکتا پھرتا۔ایک ہاتھ میں سلور کا پانی بھراجگ اورسلورکے لمبے لمبے گلاس، دوسرے میں کچھ اور۔ ایک اور آواز، چھوٹے ایک ڈبی555۔ روٹی 4سیخ کباب۔ مالک کی گرجتی آواز، چھوٹے چل سٹوڈنٹوں کی ٹیبل جوڑ، چار سٹوڈنٹ آڈرپھڑ۔ باورچیوں کی جانب سے آوازیں، اُوئے چھوٹے، چائے کے سیٹ دھو! چھوٹے، پیالے رکابیاں صاف کر۔ چھوٹا، ہر آرڈرکی تعمیل کے ساتھ رقم لالاکر مالک کو پکڑاتا جارہا ہے۔ رقم، صندوقچی کے سوراخ سے گزرکر اندرپہنچتی جارہی ہے۔ صندوقچی کا بھار بڑھتا جارہا ہے اور جیسے جیسے صندوقچی کا بھار بڑھتا جا رہا ہے، ویسے ویسے مالک کے احکامات اور ہدایتوں کی گھن گرج اور عجلت کاتقاضا بھی بڑھ رہاہے۔ ’’چھوٹے، اُوئے چھوٹے چل چھیتی کر۔ ٹیبل نمبر سولہ دہی۔ ٹیبل نمبر تیس ہاف سیٹ۔ لیڈی سٹوڈنٹوں کی ٹیبل دس، کباب سیخ پانچ۔ چل بھئی شاوا، جلدی فٹافٹ۔‘‘ بدحواسی میں بوکھلائے ہوئے چھوٹے کے ہاتھ سے پائے کے شوربے سے بھرا چینی کا پیالہ پھسلا اور چھن سے ٹوٹ گیاہے۔ شوربہ فرش پر بکھر گیا ہے۔
چھوٹا پیالے کا ٹوٹا ٹکڑا ہاتھ میں پکڑے کھڑا ہنس رہا ہے۔ جی ! جی ہاں، رو نہیں ہنس رہا ہے۔ ہنسے جا رہا ہے کہ جانتا ہے اب نہ چینی کا پیالہ جوڑا جا سکتا ہے نہ بکھرا شوربہ سمیٹا جا سکتا ہے۔ اس کو پتہ ہے کہ مالک گرج دارآواز میں فضیحتہ بھی کرے گا،گوشمالی بھی ہوگی، ساتھ اُجرت میں سے ٹوٹے پیالے کی قیمت بھی منہاکرلی جائے گی، پربرخاستگی نہیں ہوگی۔ ہو بھی نہیں سکتی کہ ہوٹل کا کاروبار تو چھوٹے کے دم خم پرچلتاہے۔ سوچھوٹاہنس رہاہے۔
چھوٹے کی ہنسی پرخیال آتاہے۔ ایک چھوٹاتوہمارے پاس بھی سدا مستعد رہتا ہے کہ اُس کو تو دم مارنے کی مہلت بھی نہیں دیتے ۔ طلوعِ آفتاب اورصبحِ کاذب وصادق سے لے کر غروبِ آفتاب۔ مرورِایام اورسال ہاسال سے مصروف اورعوام کالانعام کی خواہشات اورمتضاد تمناؤں اور آرزوؤں کی تکمیل کے احکامات جاری رہتے ہیں۔ ’’ہماری جنگ میں فتح دو!‘‘’’ہماراویزالگواؤ جلدی۔‘‘ ’’چھوٹے میراگرین کارڈ بنواؤ فوری۔ ‘‘ ’’چھوٹے میراایمی گریشن ۔۔۔‘‘ چھوٹاسن رہا ہے، کر رہا ہے۔ ’’اور یہ میچ ہر حال میں جتوانا ہے۔ ‘‘ ’’دیکھوچھوٹے ہم توڈیم بننے نہیں دیں گے، کوئی Consensus نہیں ہوگی۔ مگر یہ تمہاراکام ہے کہ ہماری کھیتیاں لہلہاتی رہیں ۔ جنگل ہرے بھرے رہیں۔ ہمیں پتہ نہیں کیسے مگر پانی کی بہم رسانی جاری رہناضرورہے۔‘‘ اورجب متضاد احکامات جاری ہونے لگیں۔ ’’چھوٹے الیکشن فوری ہوناہیں۔‘‘ ایک حکم، اس کے ساتھ ہی دوسراحکم نامہ جاری ہوتاہے۔ ’’الیکشن روک دو۔ ‘‘اتنی گراں بار،اتنی کنفیوزنگ ہدایات۔ اب چھوٹانہ ہوا، لاچابیگ ہوا (ایک بالشت بھرقامت وجسامت والا کردارجو بہ یک وقت سارے کام انجام دینے کا اہل بیان کیا جاتا ہے)۔ پر لاچابیگ تواپنی خدمات کاصلہ بھی بُھنے ہوئے منوں گوشت کی دیگوں اور اسی حساب سے روٹیوں کی شکل میں کھاکروصول کرلیا کرتا تھا۔ اور ایک یہ ہمارا چھوٹا ہے، ہم سے کچھ بھی تو نہیں مانگتا۔ کہے جاتا اور دئیے جاتا ہے اور ہم ہیں کہ اتنا کچھ لے کر، چاہے صندوقچی کا بھار کتنا ہی کیوں نہ بھرجائے، جی نہیں بھرتا۔ذرابات بگڑی اورہمارامزاج برہم ہوجاتاہے۔
ارے ہاں ایک بات اوریاد آئی۔ ہمارے بچپن کے زمانے میں کبھی کبھی ایک خاتون آیا کرتی تھیں، بادی النظر میں تو اُس کو فاترالعقل ہی کہاجاسکتاہے۔ باقی اندرخانے وہ کیاتھی؟ اورکیسی تھی، یہ تووہی جانے یاپھروہی چھوٹاجانے۔ دیکھنے میں توویسی ہی نظر آتی تھی جیسے بھیک مانگنے والیاں ہوتی ہیں کہ اس خاتون نے ایک سلورکاپیالہ بھی پکڑاہوتاتھاجو دب دباکرکشکول کی صورت اختیار کرچکاتھا۔ پرحلیہ اس کاعجب تھاکہ پنڈلیوں سے کافی اونچاتنگ پاجامہ، بالکل اسی انداز کاجیسا آج کل فیشن ایبل یونیورسٹی کی دانش گاہوں میں لڑکیاں زیب تن کیے گھومتی پھرتیں، اپنے کندھے کے ساتھ ایک جھولا لٹکائے نظر آتی ہیں۔ گلے میں ایک مردانی طرز کی قمیص کہ کف اس کے کھلے رہتے۔ دوپٹے سے البتہ بے نیازاوربال اُن کے بوائے کٹ سے بھی کچھ اوپرہی اوپرہواکرتے تھے۔ آنکھیں ان کی اچھی بھلی تھیں، پرمچ مچ کرتی رہتی تھیں۔ لبوں پراُن کے ایک سدابہارتبسم رہتا تھا، جیسے کسی پرطنزیہ مسکراتی ہوں۔
رہا اُن کا کشکول تو اس میں کبھی پیسے تونظر آئے۔ وہ مانگتی ہی نہ تھیں توپیسے کہاں نظر آتے۔ البتہ وہ ان کے کھانے پینے کے استعمال میں رہتاتھا۔ پیسے اگرکوئی اس کے کشکول میں ڈال دیتا تو باہر نکلتے ہی وہ گلی میں کھیلتے بچوں کو تقسیم کردیتیں۔ ان کے تعارف کے بعد یہ بتانابھی ضروری ہے کہ سبب اس مذکور کو کیا تھا۔ وہ یہ کہ موصوفہ کاکہناتھا کہ وہ چھوٹے سے روبروملاقات کرچکی ہیں اور یہ کہ ان کانام پگل(پگلی) ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ ایک بار ایسا ہواکہ ایک عرصے تک غائب رہنے کے بعد جب وہ نمودارہوئیں توگھرکے بڑوں نے استفسارکیا، ’’ارے بھئی پگل، تم کہاں غائب تھیں؟ ‘‘ انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا،’’میں اللہ کے پاس چلی گئی تھی۔ ‘‘
’’ارے وہ کیسے، کیاکہہ رہی ہو؟‘‘ان کی بات پرحیران توہوناہی تھا۔
’’ہاں نا، تومیں جھوٹ تونہیں کہہ رہی ہوں۔ ‘‘
’’لوبھلاکوئی اللہ کے پاس جاکر واپس آیاہے۔ ‘‘
’’ہاں تومیں جو آئی ہوں۔ ‘‘ وہ پھربڑے وثوق سے بولیں اورپھربتانے لگیں۔ ’’ایسا ہوا کہ میں مرگئی تھی اور فرشتے مجھے اوپرلے گئے اوراللہ نے جومجھے دیکھاتوبڑاناراض ہواکہ ارے یہ تم کس کو اُٹھالائے ہو، یہ توپگل ہے۔ کیوں لے آئے اسے۔ لاناکسے تھااورلے کس کو آئے۔ تمہاری مت ماری گئی ہے۔ اب فرشتے ڈرکے مارے بولے، اچھاتوہم اس کو واپس چھوڑآتے ہیں۔ مگراس نے حکم دیا،ٹھہرواس کاحال تودیکھو۔ کیسی گندی میلی ہورہی ہے۔ جاؤ اس کونہلاؤ۔ صاف کپڑے پہناؤ اور جب میں نہاکرسامنے گئی توکہااس کے بالوں کوتیل لگاؤ۔‘‘ اتناکہہ کر ان خاتون نے اپنا پورا ہاتھ لمبا کرکے سامنے کیا۔ ’’اب تم یہ دیکھو، اتنی لمبی لمبی بوتلوں میں تیل لایاگیا اورمیرے سر میں چَسا گیا۔ پھرمیرے بال بنائے گئے۔ سچ جانوٹھنڈ پڑگئی۔ ‘‘
جس وقت وہ یہ کہہ رہی تھیں ان کی آنکھوں میں ایک عجب طرح کا سرور تھا، جیسے واقعی ٹھنڈ پڑگئی ہو۔
’’اچھاتوپھرتم واپس آگئیں؟‘‘ سوال کیاگیا۔
چہک کربولیں،’’ لوبھلاایسے کیسے آجاتی۔ پھراس نے فرشتوں سے کہا کہ اب پگل کو کھاناکھلاؤ، پلاؤ! لوبھئی اتنے بڑے بڑے تھالوں میں پلاؤ آیا۔ کیسامزے دارکہ میں کیابتاؤں۔‘‘ اپنی کہنی تک ہاتھ لمباگیا۔ ’’اتنااتنالمباچاول۔ یہ بڑی بڑی بوٹیاں ۔‘‘ بتاتے ہوئے ان کے منہ میں پانی بھرآتاتھا۔ ’’بس وہ میں نے کھاکرختم کیا۔پھرمجھے واپس بھیج دیا۔ کہتے ہیں، میں تین دن تک مری پڑی رہی تھی۔ تیسرے دن زندہ ہوگئی تھی۔‘‘
پھرکوئی سوال کردیتا۔ ’’اچھاپھرتم اللہ سے ملنے گئی تھیں تو ان کی شکل تودیکھی ہوگی۔‘‘
’’لوکیوں نہیں دیکھی۔ خوب دیکھی۔ ‘‘
’’اچھاتوپھرکیسی شکل تھی؟‘‘
’’ماشااللہ سے گورے چٹے، یہ بڑاگول گول طباق سامنہ، موٹی موٹی آنکھیں۔‘‘ وہ طباق سے منہ کی گولائی ہاتھ کے اشارے سے بتاتی تھیں۔ پھرمزید بتاتی تھیں، ’’بس وہ تواپنے تخت پربیٹھے ، ہنستے ہی رہتے تھے۔ ہاہا، ٹھن، ٹھن۔ اوربھئی آپ دیکھیں کہ ہماری آپ کی ہنسی توہوتی ہے ایک گھنٹے، حد دوگھنٹے کی۔ بس وہ توہنسے ہی جاتے ہیں۔ ہا، ہا، ٹھن، ٹھن۔ ہا، ہا، ٹھن، ٹھن۔ رُکتی ہی نہیں ہنسی۔ ‘‘
ہاں تواب کہنایہ ہے کہ یہ چھوٹاتوہاتھ میں ٹوٹاپیالہ پکڑے ہنسے جارہاہے۔ اُس کومعلوم ہے کہ ڈانٹ ڈپٹ اورجھڑکیاں توپڑناہی پڑناہے اورٹوٹے پیالے کی قیمت بھی اُجرت میں سے منہاکرلی جائے گی۔ پرملازمت سے برخاست تونہیں کیاجائے گاکہ ہوٹل کاکاروبارتو اُسی کے دم سے چلتاہے۔ تویہی بات توچھوٹے کوبھی معلوم ہے۔ زلزلے آئیں، طوفان، طوفان کیا سونامی آئیں، جنگیں ہوں، قحط پڑیں اوریہ دنیاکے رہنے والے ایک دوسرے پر درندوں اورگِدھوں اور تمام گوشت خورپرندوں کی طرح قہربن کرٹوٹ پڑیں۔ ان کی غلطیوں یانادانیوں سے الزام تومیرے ہی سرپرآناہے۔ مجھے بُرابھلاکہیں گے۔ اعلان کردیں گے، ہم مانتے ہی نہیں تجھے کہ ہے بھی یاہے ہی نہیں۔ پرجائیں گے کہاں۔ ان کے گلشن کے کاروبارتومیرے ہی دم سے چلناہے اور میرابھی کیا جاتا ہے۔ مجھے تو ان خواہشوں، اُمنگوں اور ہدایتوں پرچل کر صندوقچی کو بھرنااور اس کا بھار بڑھانا ہے۔ پریہ تواب مجھے کنفیوزہی کرنے لگے ہیں۔ ٹھیک ہے کنفیوزکریں گے توپیالے بھی ٹوٹیں گے، خودبھی اتنے ہی کنفیوزہوں گے کہ بوکھلا بوکھلا کر طرح طرح کی ہدایات اور احکام جاری کریں گے اور پھر فوراً ہی اپنی ہی ہدایتوں اورحکموں کے بالکل اُلٹ احکامات جاری کرناشروع کردیں گے۔ پھر مجھے تو کنفیوزہونا ہی ہے اور پیالوں کو تو ٹوٹنا ہی ہے۔ سواب ایک ڈھیرہے میرے قدموں میں، ٹوٹے ہوئے پیالوں کا اور یوں ہے کہ ایک ٹوٹا پیالہ ہاتھ میں لیے، ٹوٹے پیالوں کے ڈھیر پر کھڑا چھوٹا ہنس رہا ہے ، ہنسے جارہا ہے۔
ہا ہا، ٹھن ٹھن۔۔۔ ہا ہا، ٹھن ٹھن۔۔۔