نیکیاں تو آپ کی ساری بھلا دی جائیں گی

نیکیاں تو آپ کی ساری بھلا دی جائیں گی
غلطیاں رائی بھی ہوں پربت بنا دی جائیں گی


روشنی درکار ہوگی جب بھی محلوں کو ذرا
شہر کی سب جھگیاں پل میں جلا دی جائیں گی


پھر کوئی تصویر حاکم کو لگی ہے آئنہ
انگلیاں طے ہیں مصور کی کٹا دی جائیں گی


ان کے ارمانوں کی پروا اہل محفل کو کہاں
صبح ہوتے ہی سبھی شمعیں بجھا دی جائیں گی


نام پتھر پر شہیدوں کے لکھے تو جائیں گے
ہاں مگر قربانیاں ان کی بھلا دی جائیں گی


کون مرجھانے سے روکے گا گلوں کو اے دنیشؔ
بلبلیں ہی باغ سے جب سب اڑا دی جائیں گی