سب کے چہروں پہ جب خوشی ہوگی
سب کے چہروں پہ جب خوشی ہوگی
کیا دنیشؔ ایسی صبح بھی ہوگی
لوگ نکلے ہیں جو یہ شمع لیے
نربھیا پھر کوئی لٹی ہوگی
سرد موسم میں بے گھروں کی دشا
بے بسی خود بھی رو رہی ہوگی
کیا کبھی انقلاب آئے گا
ان اندھیروں میں روشنی ہوگی
سب کے ہونٹوں پہ یہ سوال ہے اب
کب سیاست کو ہتھکڑی ہوگی
ابر برسے گا ٹوٹ کر جس دن
دور دھرتی کی تشنگی ہوگی
اٹھ کے ظالم کو دے جواب دنیشؔ
ظلم سہنا تو بزدلی ہوگی