میں اپنے کام اگر وقت پر نہیں کرتا

میں اپنے کام اگر وقت پر نہیں کرتا
تو کامیابی کا پربت بھی سر نہیں کرتا


حسین خواب اگر دل میں گھر نہیں کرتا
طویل رات سے میں در گزر نہیں کرتا


سکھا دیا ہے مجھے غم نے زندگی کا ہنر
کسی بھی حال میں اب آنکھ تر نہیں کرتا


گرے زمین پہ دستار سر کے جھکنے سے
میں حکمراں کو سلام اس قدر نہیں کرتا


میں اپنے عزم کی پتوار ساتھ رکھتا ہوں
مرے سفینے پہ طوفاں اثر نہیں کرتا


غرور ساتھ میں چلتا ہے ہر گھڑی اس کے
وہ اب امیر ہے تنہا سفر نہیں کرتا


دیا امید کا تو ہر گھڑی جلائے رکھ
ہر ایک رات کی کیا رب سحر نہیں کرتا


عجب جواب تھا ان کا دنیشؔ سوچیں گے
سنا تھا عشق کوئی سوچ کر نہیں کرتا