نظمیں مجھ کو ڈھونڈ رہی ہیں

نظمیں مجھ کو ڈھونڈ رہی ہیں
لیکن شاید
میں تو قبرستان کا رستہ بھول گئی ہوں
اور اپنے بوسیدہ اور مردہ خوابوں کو
اپنے ہی کاندھے پہ اٹھائے
قریہ قریہ گھوم رہی ہوں
یہ بھی یاد نہیں ہے مجھ کو
ماضی اک آسیب زدہ ویران کھنڈر ہے
حال فقط پرکار کی گردش
مستقبل اک بہلاوا ہے
تینوں دریا ایک سمندر میں گرتے ہیں
نظمیں مجھ کو ڈھونڈ رہی ہیں
لیکن میں امکان کا رستہ بھول گئی ہوں
یہ بھی یاد نہیں ہے مجھ کو
دکھ کے ریلے میں اکثر
تخلیق کی کڑیاں کھو جاتی ہیں
نظمیں بھی گم ہو جاتی ہیں