مرے خواب
مرے خواب اشکوں میں تحلیل ہو کر کہیں کھو گئے ہیں
خیال آ رہا ہے
کہ شاید مری روح کے نیم تاریک سے جنگلوں میں بھٹکنے لگے ہیں
کئی دن سے ان تک
مری سوچ میرے تصور کی کوئی رسائی نہیں ہے
مگر جانتی ہوں کہ وہ دھیرے دھیرے مرے ہی لہو میں سسکنے لگے ہیں
کئی دن سے میں نے انہیں کوئی لوری سنائی نہیں ہے
سو اب یہ کسی ننھے بچے کی صورت بلکنے لگے ہیں
میں اب سوچتی ہوں
کہ ان کے لئے
اپنی آنکھوں سے باہر نکلنے کی میں کوئی تدبیر کرتی
تجربوں کے روشن سفر پر انہیں ساتھ لے کر تو جاتی
میں اک بار تو ان کی توقیر کرتی
میں اب سوچتی ہوں
کہ اک خوب صورت سا چہرہ بنا کر
انہیں اپنے کمرے کی بوسیدہ دیوار پر ہی سجاتی
محبت کے بکھرے ہوئے سارے رنگوں کو تصویر کرتی
مگر اب مرے خواب گہری بغاوت کے نشے میں ہیں وہ بہکنے لگے ہیں
سو اب یہ ہوا ہے
کہ میں نے اٹھا کر انہیں گھر کی دہلیز پر رکھ دیا ہے
کہ شاید کوئی اک شناسا مسافر ادھر آن نکلے
ذرا دیر ٹھہرے ذرا مسکرائے
مرے خواب کی کرچیوں کو سمیٹے
اور اپنی امنگوں سے بھرپور آنکھیں یہیں چھوڑ جائے