جنوں کو بھی عرض حال کا اہتمام کرنا سکھا رہی ہوں
جنوں کو بھی عرض حال کا اہتمام کرنا سکھا رہی ہوں
میں دل کی دھڑکن کو شور غم سے کلام کرنا سکھا رہی ہوں
سکھا رہی ہوں چراغ کو یہ کہ جل کے بجھنے کا حسن کیا ہے
ہواؤں کو روشنی کا میں احترام کرنا سکھا رہی ہوں
وہ زندگی جس کے ناز اٹھائے نہ جانے کس لمحہ رخ بدل لے
اسی لیے تو میں اپنی صبحوں کو شام کرنا سکھا رہی ہوں
نئے مفاہیم راہ پائیں نئے معانی سفر پہ نکلیں
سو حرف کو شہر آگہی میں قیام کرنا سکھا رہی ہوں
سمندروں کے سفر میں آخر یہ کن جزیروں کی روشنی ہے
نئی زمینوں کے راز ساحل کو عام کرنا سکھا رہی ہوں
یہ دائرے زاویے یہ قوسیں یہ نوک پرکار کا ہنر ہیں
اسی ہنر سے تمام کو ناتمام کرنا سکھا رہی ہوں
نہ آہ کوئی نہ کوئی آنسو یہ درد کی بزم ہے سو دل کو
بڑے سلیقے سے جشن کا انتظام کرنا سکھا رہی ہوں