نواح جاں میں عجب حادثہ ہوا اب کے
نواح جاں میں عجب حادثہ ہوا اب کے
بدن کا سارا اثاثہ بکھر گیا اب کے
زوال آ گیا رشتوں کے چاند سورج کو
وہ بھی خموش تھا اور میں بھی چپ رہا اب کے
اور اس نے ڈھونڈ لیا کوئی سائبان نیا
تمام رات میں ہی بھیگتا رہا اب کے
یہ دور دور یزیدی کی جیسے ہے توسیع
مچی ہے چاروں طرف پھر سے کربلا اب کے
مجھے تلاش کرو تم افق کے پاس کہیں
زمیں سے ٹوٹ گیا میرا رابطہ اب کے
وہ کہر کہر سے چہرے دھواں دھواں سی فضا
قمرؔ میں کیسے کوئی خواب دیکھتا اب کے