نوائے تلخ
جذبات کے طوفاں میں یہ ضبط فغاں کب تک
مجبور یہ دل کب تک مرعوب زباں کب تک
یہ سود کے پردے میں آہنگ زیاں کب تک
الفاظ کے پھندوں میں اعجاز بیاں کب تک
آزاد ہواؤں میں پر تول نہیں سکتے
اغیار کے ہاتھوں میں عمر گزراں کب تک
اٹھ جذبۂ خودداری تا چند زیاں کاری
اٹھ جوش حمیت اٹھ یہ خواب گراں کب تک
احساس کی بستی میں جب آگ لگائی ہے
اے سوز دروں آخر نکلے نہ دھواں کب تک
مقصد تری ہستی کا پوشیدہ ہے کوشش میں
یہ نفس کشی تا کے یہ خواب جناں کب تک
جینا ہے تو جینے کے انداز بھی پیدا کر
کام آئیں گے آبا کے یہ نام و نشاں کب تک
کہہ ڈالیں وہ سب آخر کہنے کی جو تھیں باتیں
خاموش بشیرؔ آخر رہتی یہ زباں کب تک