کہاں تک کوئی وضع اپنی سنبھالے

کہاں تک کوئی وضع اپنی سنبھالے
نظر آ رہے ہیں تماشے نرالے


پرستار مغرب نہ کیوں کر ہو دنیا
بناتے نئے بت ہیں تہذیب والے


گیا ذوق اہل نظر کی نظر سے
نئی روشنی کے ہیں سارے اجالے


بلاوے یہ پھر کیوں انہیں آ رہے ہیں
بھری بزم سے جو گئے ہیں نکالے


جو لذت میسر ہے ذوق طلب میں
نہیں اس سے واقف ترے عرش والے


تو نیرنگی روز و شب سے نہ اکتا
زمانے ابھی اور ہیں آنے والے


گئی آہ دنیا سے روشن ضمیری
کہ شاہیں بنے زاغ کی چلنے والے


نہ نکلیں گے کانٹے بشیرؔ اپنے دل کے
اگر ایک دو ہوں تو کوئی نکالے