ہم اپنے آپ سے کرتے رہے بیاں تنہا

ہم اپنے آپ سے کرتے رہے بیاں تنہا
تمہاری بزم میں بیٹھے کہاں کہاں تنہا


تغیرات کے آسیب میں وجود مرا
اجاڑ بن میں ہو جیسے کوئی مکاں تنہا


یہ سوز و ساز کا پیکر یہ ہڈیوں کا نگر
جو آگ پائے تو چٹخے اٹھے دھواں


کہیں کسی کی سیاست نہ رنگ لائی ہو
بھرے چمن میں ہے کیوں آج باغباں تنہا


یہ بار عشق جسے آسماں اٹھا نہ سکا
اٹھائے پھرتا رہا ہوں میں ناتواں تنہا


تمہارے آنے کی آہٹ تو کب سے سنتا ہوں
چلے بھی آؤ مرے پاس مہرباں تنہا


ہمیں حریف رہے اور ہمیں حلیف ہوئے
ہمارے بعد ہوا میر کارواں تنہا


وہی تو دشمن جاں ہے اسی سے کیسے بچیں
وہ ایک شخص جو آیا تھا کل یہاں تنہا


یہی زمین تمدن کی رازدار رہی
یہی زمین اگلتی رہی دھواں تنہا