نقاب چہرے پہ باتیں لعاب دار کرے
نقاب چہرے پہ باتیں لعاب دار کرے
وہ رہنما ہے سیاست کا کاروبار کرے
یہ صرف خوابوں کتابوں کی بات لگتی ہے
کہ اک غریب کی امداد مال دار کرے
نئے زمانے کا رہزن نیا سلیقہ ہے
وہ لوٹتا ہے مگر پہلے ہوشیار کرے
چراغ لے کے بھی ڈھونڈھیں گے تو ملے گی نہیں
جہاں میں ایک بھی ہستی جو ماں سا پیار کرے
ہوا کے زور سے ہی کشتیاں نہیں چلتیں
کہ ناخدا بھی خدا سے ذرا گہار کرے
وہ گل بدن ہے مکمل بہار سے بڑھ کر
بس اس کا ذکر ہی موسم کو خوش گوار کرے
نہ جانے کون سی بستی کا تو ہے باشندہ
تجھے دنیشؔ کوئی غم نہ بے قرار کرے