نئی دنیا نئے منظر نئے افکار ملے
نئی دنیا نئے منظر نئے افکار ملے
سب شجر نقل مکانی کے ثمر بار ملے
باد ہجرت تو ہمیں لے کے جہاں آئی ہے
ان گلی کوچوں میں انسانوں کے شہکار ملے
خوب صورت سے کسی بار کے اک گوشے میں
دل کی تنہائی مٹانے کو کئی یار ملے
کہیں کھو جانے کا دکھ ایک حقیقت ہی سہی
اپنی پہچان کے بھی نت نئے آثار ملے
کب تلک سر پہ وراثت کی ردا لے کے چلیں
کیوں نہ اب ہم کو کوئی سایۂ دیوار ملے