نہیں معلوم وہ اپنی وفا کو کیا سمجھتے ہیں

نہیں معلوم وہ اپنی وفا کو کیا سمجھتے ہیں
ترے انکار کرنے کو بھی جو وعدا سمجھتے ہیں


زمانے کو تمہارا اور تمہیں اپنا سمجھتے ہیں
اگر ایسا سمجھتے ہیں تو کیا بے جا سمجھتے ہیں


نہ پوچھو ہم محبت کی خلش کو کیا سمجھتے ہیں
یہ وہ نعمت ہے جس کو حاصل دنیا سمجھتے ہیں


پہنچ جانے میں ان تک ہے تو بس یہ زندگی حائل
ہم اپنی سانس کو بھی راہ کا کانٹا سمجھتے ہیں


زمیں سے سر اٹھاتے ہی نگاہیں چار ہو جائیں
حقیقت میں اسی سجدے کو ہم سجدہ سمجھتے ہیں


سنانا تھا دل بیتاب کا قصہ سنا ڈالا
وہ سن کر دیکھیے کیا سوچتے ہیں کیا سمجھتے ہیں


انہیں کے واسطے ہیں امتحان عشق کی قیدیں
جو اپنی ہستئ موہوم کا منشا سمجھتے ہیں


وفاداروں سے پوچھو نرخ اپنی جنس الفت کا
اگر سر دے کے بھی مل جائے تو سستا سمجھتے ہیں


انہیں کے سر رہا کرتا ہے مہرا نا خدائی کا
جو قطرے کی حقیقت کو بھی اک دریا سمجھتے ہیں


گلہ بے سود ہے اے جرمؔ بے مہریٔ عالم کا
برا کچھ لوگ کہتے ہیں تو کچھ اچھا سمجھتے ہیں