نہیں کوئی بھی آئے گا
یہ جو ہر روز و شب اپنی
ہر اک دکھ درد کی کڑیاں
پرو لیتی ہوں شبدوں سے
نہ جانے کیا کیا کہتی ہوں
فضول الجھی ہی رہتی ہوں
کبھی لگتا ہے ایسا بھی
کے یہ ہر پل کی وحشت سے
کبھی تھک ہار کے اک دن
کسی بے نام کونے میں
چلی جاؤں بہت ہی دور
جہاں اپنے سوا کوئی
نہیں پہچان سکتہ ہو
مجھے پھر ڈھونڈتے آواز دیتے
تم چلے آؤ
کہو آ کر مجھے تم یہ
مجھے کیوں چھوڑ کر تنہا
بتائے بن چلی آئی
تمہیں احساس ہے کوئی
مرا کیا حال تھا تم بن
مگر میں جانتی ہوں یہ
نہیں کوئی بھی آئے گا