نہیں ہے خوش اضطراب میں ہے

نہیں ہے خوش اضطراب میں ہے
مرا یہ دل بھی سراب میں ہے


میں کیسی راہوں میں کھو گئی ہوں
سبھی قصور انتخاب میں ہے


دکھوں بھری رات کٹ گئی ہے
ستارہ سحری سحاب میں ہے


وہ یوں تو لگتا ہے سب کے جیسا
مگر جدا کچھ جناب میں ہے


میں چاہے اس میں نہیں ہوں شامل
مگر وہ دل کے نصاب میں ہے


میں اس کی انکھوں میں ایسے ڈوبی
کہ ڈوبا کوئی چناب میں ہے


یہ مجھ کو محسوس ہو رہا ہے
فرحؔ پھر کوئی عتاب میں ہے