نئے لباس کو ہم تار تار کیا کرتے
نئے لباس کو ہم تار تار کیا کرتے
ملی تھی بھیک میں فصل بہار کیا کرتے
ہم اپنے زخم تمنا شمار کیا کرتے
تمام عمر یہی کاروبار کیا کرتے
جب آفتاب کئی اپنی دسترس میں رہے
تمہیں کہو کہ چراغوں سے پیار کیا کرتے
ہمارے ہاتھ میں پتھر تھے پھل گرانے کو
ہم آندھیوں کا بھلا انتظار کیا کرتے
کبھی ہم اپنی وفاؤں سے مطمئن نہ ہوئے
نگاہ یار تجھے شرمسار کیا کرتے
ہمارا درد بھی کچھ تم سے مختلف تو نہ تھا
ہم اہل ظرف تھے چیخ و پکار کیا کرتے
انہیں بھی اپنی خوشی تھی عزیز اے اسرارؔ
جو میرا دل نہ دکھاتے تو یار کیا کرتے