ندامت

جس کے جھوٹے پیار پہ ہم نے
سچائی کے سارے نغمے
سارے قصے
اس کے پاؤں پہ لا رکھے
لیکن
اس کی فطرت کے ہرجائی پن سے
جو کچھ ہمیں میسر آیا
اس کا کیا احوال سنائیں
کیسے ماہ و سال بتائیں
خود سے ہی شرمندہ ہیں
سارے سپنے ٹوٹ گئے
دیکھو پھر بھی زندہ ہیں