نازش گل ہوا کرے کوئی
نازش گل ہوا کرے کوئی
دل سے کانٹا جدا کرے کوئی
بہتے ہیں بات بات پر آنسو
ایسی آنکھوں کو کیا کرے کوئی
جب کسی بات میں اثر ہی نہیں
کیا دوا کیا دعا کرے کوئی
کون ہے وہ جو درد مند نہیں
کس کی کس کی دوا کرے کوئی
جب کلیجے میں تیر ہو پیوست
نہ کراہے تو کیا کرے کوئی
ضبط کی حد ہے موت تک لیکن
پھر ستم ہو تو کیا کرے کوئی
کچھ نہیں جس میں درد دل کا علاج
ایسی دنیا کا کیا کرے کوئی
آ چلا لطف زندگی ہم کو
درد اب تو سوا کرے کوئی
موت ہے امتحان شوق جگرؔ
ورنہ کیوں کر وفا کرے کوئی