نالہ بر لب حرم سے نکلنا پڑا

نالہ بر لب حرم سے نکلنا پڑا
اک دعا مانگ کر ہاتھ ملنا پڑا


رہ گزر میں نہ تھا آشنا کوئی شخص
پھر بھی ہر شخص کے ساتھ چلنا پڑا


کیسی شبنم کہاں کے نسیم و سحاب
اپنے شعلے میں ہر گل کو جلنا پڑا


عادتاً خضر کے ساتھ دنیا چلی
فطرتاً ہم کو آگے نکلنا پڑا


چلتے چلتے جہاں شورؔ ہم رک گئے
اپنا رخ حادثوں کو بدلنا پڑا