نا مہرباں ہے تو تو کوئی مہرباں بھی ہے

نا مہرباں ہے تو تو کوئی مہرباں بھی ہے
ہے جس جگہ زمین وہاں آسماں بھی ہے


تبدیل کر کے دیکھ نگاہوں کے زاویے
جو تیری آنکھ میں ہے وہ منظر یہاں بھی ہے


یوں ہی تو رابطوں میں نہیں ہے کھنچاؤ سا
ہم ہی نہیں ہیں اور کوئی درمیاں بھی ہے


مل ہی گیا ہے جب تو محبت سے بات کر
ورنہ یہ دھیان رکھ مرے منہ میں زباں بھی ہے


اس رات کے ادھر بھی ہے اک صبح کا وجود
میرا یقین بھی ہے یہ میرا گماں بھی ہے


میری غزل میں صرف غزل کی فضا نہیں
لفظوں کی کائنات میں دل کی زباں بھی ہے