نہ راستہ کوئی اس کا نہ اس کا خواب کوئی
نہ راستہ کوئی اس کا نہ اس کا خواب کوئی
پڑا نہ عشق پہ ایسا کبھی عذاب کوئی
کسی کا حسن تھا یوں آنسوؤں کے دامن میں
چراغ جلتا ہو جس طرح زیر آب کوئی
زمانے بھر کی عطاؤں میں صرف اس کا کرم
کرم بھی ایسا کہ جس کا نہیں جواب کوئی
تمازت غم دنیا میں اس کو یاد کیا
تو دشت دل پہ برستا رہا سحاب کوئی
اگر فسانوں کے پیچھے کوئی حقیقت ہے
تو خواب اور بھی ہوگا ورائے خواب کوئی
یہ لوگ بول رہے ہیں مگر فضا ہے خموش
ہمارے عہد میں آنا ہے انقلاب کوئی
وہ جب ہجوم کے نرغے میں اور تنہا تھا
تو دیکھنے کی تھی پھر اس کی آب و تاب کوئی
اب اس کی بزم سے آ کر خموش رہتا ہے
تھا بارگاہ میں اک روز باریاب کوئی
ہر ایک راہ سے ہٹ کر گزرتے ہو عادلؔ
تو اس طرح سے ملا ہے کبھی جناب کوئی