نہ پوچھ منظر شام و سحر پہ کیا گزری

نہ پوچھ منظر شام و سحر پہ کیا گزری
نگاہ جب بھی حقیقت سے آشنا گزری


ہمارے واسطے ویرانئ نظر ہر سو
ہمیں نے دشت سجائے ہمیں پہ کیا گزری


نہ جانے کیسی حقیقت کا آئنہ ہوں میں
نظر نظر مرے نزدیک سے خفا گزری


یہ زرد ہو گئے کیسے ہرے بھرے اشجار
جو لوگ سائے میں بیٹھے تھے ان پہ کیا گزری


غروب ہوتی رہیں اس کی نیکیاں دن میں
ہر ایک رات گناہوں کی بے سزا گزری


جلا رہا تھا سر شام مشعلیں کوئی
تمام رات الجھتی ہوئی ہوا گزری


نہ دیکھ پاؤگے بے منظری اجالوں کی
یہ رات ڈھلنے لگی تو کوئی صدا گزری