کہیں صلیب کہیں کربلا نظر آئے
کہیں صلیب کہیں کربلا نظر آئے
جدھر نگاہ اٹھے زخم سا نظر آئے
بجھی ہے پیاس زمیں کی تو یہ تپش کیوں ہے
وہ ابر ہے تو برستا ہوا نظر آئے
بجا ہے اپنی عقیدت مگر سوال یہ ہے
وہ آدمی ہو تو کیونکر خدا نظر آئے
چلو کہ گھیر لیں اس کو لہو لہو چہرے
ہر ایک سمت اسے آئنہ نظر آئے
ہمیں نے تن سے جدا کر لیا ہے سر اپنا
بس ایک ہم تھے جو سب سے جدا نظر آئے
کہاں کہاں ابھی امکان زندگی ہے امیرؔ
دھواں چھٹے تو کوئی راستہ نظر آئے