نہ نشاط چارہ سازی نہ ملال کم نگاہی

نہ نشاط چارہ سازی نہ ملال کم نگاہی
مجھے اس نظر نے مارا بے گناہ بے گناہی


سر انجمن غنیمت ہے بتوں کی کم نگاہی
کہ سکون دل پہ آتی ہے نظر سے بھی تباہی


یہ سیاست بہاراں ہے خزاں کی بے پناہی
کہ جو جل اٹھے نشیمن تو چمن نہ دے گواہی


تری انجمن سے باہر کئی آفتاب نکلے
نہ دھلی کسی سحر سے کسی رات کی سیاہی


ترے شہر سے نکلتے ہی مزاج دہر لا ہی
نہ وہ ربط شبنم و گل نہ وہ باد صبح گاہی


ترے شہر آرزو میں یوں ہی کٹ گئی ہیں راتیں
نہ جنوں کی آنکھ جھپکی نہ خرد نے لی جماہی


دئے تیری رہ گزاروں کے جہاں جہاں جلے ہیں
نہ چراغ بت کدہ ہے نہ چراغ خانقاہی


نہ صنم کدے کی منزل نہ حرم کا آستانہ
وہ نظر جہاں اٹھی ہے وہیں رک گئے ہیں راہی


کوئی شورؔ یہ تو پوچھے در و بام خسروی سے
یہ لہو سے کس کے روشن ہے چراغ کج کلاہی