نہ کسی بھی غم کے بدلے نہ کسی خوشی کے بدلے

نہ کسی بھی غم کے بدلے نہ کسی خوشی کے بدلے
تجھے زندگی ملی ہے مری زندگی کے بدلے


مری جرأتوں کی کوئی نہیں قدر کرنے والا
تجھے مل رہے ہیں تمغے تری بزدلی کے بدلے


تجھے آج تک بھی شاید یہ خبر نہیں کہ میں نے
ہے چکائی کتنی قیمت تری دوستی کے بدلے


مری آرزو کا حاصل ترے لب کی مسکراہٹ
ہیں قبول مجھ کو سب غم تری اک خوشی کے بدلے


مجھے فکر ہے جزا کی نہ ہی خوف ہے سزا کا
رہے مجھ سے بس تو راضی مری بندگی کے بدلے


وہ لگا رہے ہیں مجھ پر جو طرح طرح کی تہمت
لیے جا رہے ہیں مجھ سے کسی دشمنی کے بدلے


ترا فرض ہے یہ کاشفؔ تو وقار اس کا رکھے
تجھے لوگ جانتے ہیں تری شاعری کے بدلے