مر مر کے جیے یوں دنیا میں جینے کا سلیقہ بھول گئے

مر مر کے جیے یوں دنیا میں جینے کا سلیقہ بھول گئے
بے نام و نشاں کچھ ایسے ہوئے ہم نام بھی اپنا بھول گئے


صحرا سے ہوئی نسبت جب سے ویرانوں میں محفل جمتی ہے
اے جوش جنوں تیرے صدقے آبادی سے رشتہ بھول گئے


سب حوصلے دل کے پست ہوئے ساحل پہ سفینہ کیا پہنچا
موجوں سے الجھنا چھوڑ دیا طوفانوں سے لڑنا بھول گئے


اک خواب سا جیسے دیکھا تھا تعبیر نہ تھی کوئی جس کی
آواز ہے کچھ کچھ یاد مگر نقش رخ زیبا بھول گئے


اب کس کا سہارا باقی ہے اب کس سے شفا مانگے کوئی
بیماری نے اپنا کام کیا تم جب سے مسیحا بھول گئے


اتنا ہے ہمارا افسانہ اے طاہرہؔ اتنا یاد رہے
مرجھائے ہوئے غنچہ کی طرح کھلنے کی تمنا بھول گئے