نہ فاصلے رہے قائم نہ قربتیں اب کے
نہ فاصلے رہے قائم نہ قربتیں اب کے
عجیب حال سے گزری ہیں الفتیں اب کے
ہمارے ساتھ جو چلتا تھا وہ نہیں آیا
گزر چلی ہیں بہاروں کی مدتیں اب کے
ہر اک قدم پہ سراب وفا میں ڈوبے تھے
ہر اک قدم پہ ملی ہیں حقیقتیں اب کے
وہ یک بیک جو ملے گا تو کیسے دیکھیں گے
ہوئی ہیں جس سے ملے ہم کو مدتیں اب کے
بجائے نقد وفا کے کچھ اور بات کرو
بدل گئی ہیں جہاں کی ضرورتیں اب کے
نہیں ہے صرف وہ تنہا میں جیسا سمجھا تھا
ہر ایک شہر میں دیکھیں شباہتیں اب کے
میں اس سے دور گیا تھا تو آ گیا عادلؔ
خود اپنے آپ یہ ہیں مجھ کو حیرتیں اب کے