نہ دیکھیں کمتری اب کم تروں کی
نہ دیکھیں کمتری اب کم تروں کی
اسی میں بہتری ہے بہتروں کی
کرو تم لاکھ آرائش گھروں کی
ضرورت کم نہ ہوگی مقبروں کی
یہاں تھک جائے نہ نیزہ تمہارا
مری بستی ہے بستی خود سروں کی
سیاست نے پڑھا رہزن کا کلمہ
بڑی ذلت ہوئی ہے رہبروں کی
چمن کو یہ نیا موسم مبارک
اڑے گی فاختہ اب بے پروں کی
خدا رکھے دل ایذا طلب کو
زباں چلتی رہے گی نشتروں کی
خوشا قاتل کی شان شہر یاری
منائیں خیر ہم اپنے سروں کی
نظر آتا نہیں اپنا گریباں
برائی کر رہے ہیں دوسروں کی
ولیؔ جی پیر مے خانہ بنے ہیں
عنایت ہے غزل کے دلبروں کی