مشتاق تھے جس کے جلوؤں کے آنکھوں کا چھلکتا جام لئے
مشتاق تھے جس کے جلوؤں کے آنکھوں کا چھلکتا جام لئے
وہ صبح طرب آئی تو مگر دامن میں ہزاروں شام لئے
اس دور طرب میں اے ہمدم مت پوچھ مسرت کا عالم
بھولے سے ہنسی آئی تو مگر تلخیٔ غم ایام لئے
ایسا نہ ہو اک دن گھبرا کر میں ترک محبت کر بیٹھوں
دیکھو گے مری جانب کب تک تم سلسلۂ اوہام لئے
زندان و قفس کی بات نہیں یہ حال ہے اپنا گلشن میں
پانی جو ملا تو زہر ملا دانہ جو ملا اک دام لئے
مسلمؔ مجھے اپنے مٹنے کی کچھ فکر نہیں ہاں غم یہ ہے
اس دور میں جو فتنہ بھی اٹھا کم بخت مرا ہی نام لئے