مٹے گا کب تری زلفوں کا خم خدا جانے

مٹے گا کب تری زلفوں کا خم خدا جانے
کھلے گا کب ترا ظالم بھرم خدا جانے


یہاں تو پاتا ہوں ہر اک کو تشنہ لب ساقی
کدھر بڑھا ترا دست کرم خدا جانے


وہی تشدد گلچیں وہی غم صیاد
قفس میں ہیں کہ نشیمن میں ہم خدا جانے


وہ راز غم جسے دل میں چھپا کے رکھا تھا
کہاں سے پا گئی یہ چشم نم خدا جانے


ضرور وجہ کشاکش ہے کچھ نہ کچھ اے دوست
بدل گیا ہے کوئی تم کہ ہم خدا جانے


نگاہ شوق میں مسلمؔ نہ دیر ہے نہ حرم
کہاں رہیں گے ہمارے قدم خدا جانے