منتشر شہزاد گان دل کا شیرازہ نہ ہو
منتشر شہزاد گان دل کا شیرازہ نہ ہو
کاش یاروں کی ہنسی فتنوں کا غمازہ نہ ہو
اب وہ سونے کا سہی لیکن مرے کس کام کا
جس مکاں میں کوئی کھڑکی کوئی کوئی دروازہ نہ ہو
وہ جواں خون اور اس پر نشہ دیدہ وری
کیا کریں وہ بھی جو میرے غم کا اندازہ نہ ہو
یاد ہے کچھ تم نے کل خاکہ اڑایا تھا مرا
پھول سی آنکھوں میں شبنم کل کا خمیازہ نہ ہو
پھر جنوں کیوں کر سجے دنیا کو کیسے رنگ دے
باعث تحریک اگر یاروں کا آوازہ نہ ہو
کاش میرے غم کا سایہ بھی رہے اپنوں سے دور
کاش اب یکجا مری یادوں کا شیرازہ نہ ہو
آ گلے ملنے سے پہلے کیوں نہ مل کر دیکھ لیں
دل کے تہہ خانے میں کوئی چور دروازہ نہ ہو
وہ تو مردہ ہیں انہیں احساس کی خوشبو سے کیا
اپنے انداز نظر کا جن کو اندازہ نہ ہو
کاش اے غوثیؔ زمانے بھر کا بچپن لوٹ آئے
سب کے چہروں پر حقیقی نور ہو غازہ نہ ہو